’’میں پاکستان ہوں‘‘
اظہر تھراج میں بھی مایوس نہیں کہ میرے بیٹے سرحدوں پر موجود ہیں۔ وہ مجھے بچائیں گے۔ وہی مجھے ترقی دینگے۔ میں پاکستان ہوں، میرے پیدا ہونے سے آج تک کی ایک بہت لمبی کہانی ہے۔ ایک کٹھن سفر ہے۔ میرے پیدا ہونے سے پہلے ہی میرا نام پاکستان رکھا گیا۔ 1947ء میں جب میرا جنم ہوا تو مفلوک الحال غریب کے بچے کی طرح میرے تن پہ کپڑے، پیٹ میں نوالے نہیں تھے۔ میرا بچپن اور لڑکپن ایسے ہی گزر گئے بلکہ اس حال میں مجھے کئی لڑائیاں بھی لڑنی پڑیں، جس کے مجھ کو زخم بھی آئے جن سے آج بھی خون رس رہا ہے۔ میری پیدائش پر جہاں خوشیاں منائیں گئیں تو وہیں لاکھوں قربانیاں بھی دی گئیں، کئی سہاگ اجڑے تو لاکھوں یتیم ہوئے۔ کئی بے گھر ہوئے، دربدر ہوئے۔ مجھے بچپن سے لیکر آج تک آئین کی زنجیروں میں جکڑنے کی کئی بار کوشش کی گئی، پہلے انگریزوں کا قانون لاگو کیا گیا۔ پھر 1949ء میں قرارداد مقاصد کے نام پر مجھے مولوی بنانے کی کوشش کی گئی، یہ بات جب سیکولر طبقے کو ہضم نہ ہوئی تو مجھے لادین ثابت کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ 1952ء اور 1956ء میں ایک بار پھر زنجیریں پہنائیں گئیں جو دو سال بعد ہی ٹوٹ گئیں۔ 196...