خون مسلم۔۔ارزاں کےوں ہے؟
آنسو ہےں کہ تھمتے نہےں،آہےں کہ رکتی نہےں،اےک لاچار مسلمان کر ہی کےا سکتا ہے،دنےا کے چپے چپے پر امت مسلمہ کے کٹے جسموں کو دےکھ کر قلم کی سےاہی بھی خون لگتی ہے،بارود کی بو لگتی ہے، اکتالیس کلومیٹر طویل اور چھ تا بارہ کلومیٹر چوڑی دنیا کی سب سے بڑی اوپن جیل غزہ میں اٹھارہ لاکھ انسان محصور ہےں،ہاں
ٖدنےا مےں ستاون اسلامی ممالک ،اسلام دنےا کا دوسرا بڑا مذہب،دےن محمدۖ کے دو ہزار اڑتےس بلےن نفوس ماننے والے،دنےا کا اٹھائےس فےصد مسلمان،مشرق وسطٰی،شمالی افرےقہ،ہارن آف افرےقہ اور اےشےائ مےں بڑی تعداد مےں آباد،امرےکہ،ےورپ مےں کمےونٹےز کی صورت مےں رہتے ہےں،دنےا کے قےمتی ترےن وسائل سے مالا مال،سب کچھ ہونے کے باوجود آٹھ ملےن ےہودےوں کے سامنے بے بس دکھائی دےتے ہےں،اسے مجرمانہ غفلت کہےں ےا بزدلی۔ دنیا بھر کی اےن جی اوز اور نام نہاد امن،آزادی کی ٹھیکیدار،انسانی حقوق کی تنظیموں،مذہبی آزادی کے راگ الاپنے والے دانشوروںکو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو طالبان کے خلاف عقلی اور انسانی دلیلیں دینے والے بے حس مسلمان اور حکمران گونگے بنے بیٹھے ہیں،کوئی چیخ و پکار نہیں کوئی آہ و بکا نہیں۔
فلسطین میں جاری اسرائیلی بمباری کوئی نئی بات نہیں کیونکہ اسرائیل ہمیشہ اسطرح کی کارروائیاں کرتا چلا آرہاہے۔ اور جب بھی اس کے خلاف کوئی قرارداد پیش کی جاتی ہے تو سلامتی کونسل میں بیٹھا امریکی ایلچی یٹو کا لفظ بول کر مظلوم فلسطینیوں کی امیدیں ہی توڑ دیتا ہے۔اس ظلم کے خلاف دوسری اہم آواز عرب لیگ اور او۔آئی۔سی کی ہے جو اب زبانی کلامی مخالفت اور مزحمت بھی گوارا نہیں کرتیں۔
ایک وقت تھا جب اسرائیل کو ایسی کاروائیوں پر شام سے حافظ الاسد، عراق سے صدام حسین، سعودی عرب سے شاہ فیصل اور بعد ازاں شاہ عبدالعزیز کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ کیمپ ڈیوڈ میں فلسطینیوں کے خون کا سودا کرنے والا مصر بھی آج چپ ہے،آج محمد مرسی بھی جےل مےں ہے،مصر اپنی جانب کی غزہ کی سرحدیں بھی بند کر چکا ہے تاکہ مظلوم فلسطینیوں کو کئی امداد نہ پہنچ سکے۔ پوری دنیا میں آج اردگان کے علاوہ کوئی لیڈر نہیں جو فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی ہی کر سکے۔آج اےران کا احمدی نږاد بھی موجود نہےں جو اس ظلم پر بول سکے،اےرانی سنےوں کےخلاف ساری طاقت صرف کررہے ہےں تو سنی شےعوں کو کافر کہ کر مار رہے ہےں۔
مشرق وسطی میں 9/11 کے بعد جاری مشکوک جہادی تحریکوں نے جہاں خطے کے اندر اسرائیل مخالف قوتوں کو کمزور کر دیا ہے وہیں پر ماضی کی دو طاقتور اسرائیلی حریف ریاستیں شام اور عراق اپنی بقائئ کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ یہ کیسے جہادی گروہ ہیں جنھیں اسرائیل کے خلاف ایک گولی چلانے کی بھی فرصت نہیں۔ جب کہ شام کا وہ علاقہ جہاں جہادی گروہ قابض ہیں وہاں سے اسرائیلی سرحدیں چند قدم سے زیادہ دور نہیں ہیں۔میں یہاں پر سعودی عرب کا ذکر نہیں کروں گا جس کا سرمایہ اپنی ہی مسلمان ریاستوں میں انتشار کے لیے کام آ سکتا ہے مگر فلسطینیوں کے ساتھ اظہار ہمدردی سے ریاض کے شہزادوں کو بھی کوئی سروکار نہیں۔آج پوری دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو اسرائیل کو باز رکھ سکے کیوں کہ بحیرہ روم کے کنارے پر موجود اس صہیونی ریاست سے سب کے مفادات جکڑے ہوئے ہیں ۔اور غلیل سے اسرائیل کا مقابلہ کرتی فلسطینیوں کی تیسری نسل سے نہ تو مسلم حکمرانوں اور نہ ہی عالمی دنیا کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ مسلم حکمرانوں کو غزہ کے مقتل میں بکھری لاشوں سے کوئی غرض نہےں،ان کی تو طاقت امام،پےسہ اےمان ہے،اےک بھکاری کو پےسہ جہاں سے ملے گا وہی اس کا امام ہوگا،وہ پےسہ چاہے دلالی کرکے ملے ےا اپنی عزت،خون بےچ کے ملے اس سے کوئی فرق نہےں پڑتا۔
اٹھارہ لاکھ انسان؟ میں نہیں چاہتا کہ غزہ یا پھر غرب ِ اردن یا پھر اردگرد کے ممالک میں پناہ گزین فلسطینیوں کو انسان کہنے سے کسی صیہونی قوم پرست کے جذبات کو ذرا سی بھی ٹھیس پہنچے۔ میری مراد ہے غزہ کی اٹھارہ لاکھ انسان نما مخلوق۔ اسرائیل میں فی مربع کلو میٹر تین سو بہتر انسان بستے ہیں اور غزہ کے پنجرے میں فی مربع کلومیٹر پانچ ہزار بیالیس انسان نما سانس لیتے ہیں۔۔۔پر اےک ہزار کے قرےب فضائی حملے ہوچکے ہےں جس کے نتےجے مےں سےنکڑوں جانےں ضائع ہو چکی ہےں،دوسری طرف زمےنی کارروائی بھی شروع ہوچکی ہے،مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے ،خون مسلم اتنا ارزاں ہوچکا ہے کہ کوئی بولنے کی طاقت ہی نہےں رکھتا،امن،امن پکارنے والی زبانےں عالمی زےونسٹ دہشتگردی پر گنگ ہوچکی ہےں،غےروں کا کےا شکوہ اپنے ہی شتر مرغ کی طرح رےت مےں سر چھپا ئے بےٹھے ہےں،نہ خلافت کے علمبردار مےدان مےں آئے ہےں اور نہ ہی بادشاہت کے پےروکار۔
Comments
Post a Comment