تحریک عدم اعتماد: میچ آخری اوورز میں داخل

حکومت اور اپوزیشن کا میچ دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکا ہے،اپوزیشن کی تیز گیندیں حکومت کے بلے بازوں کو کریز پر ٹکنے نہیں دے رہیں ،پانچ سات اوور کا میچ باقی ہے اور ہدف کم ہے۔تبصرہ نگار کہتے ہیں کہ اسی طرح گیند بازی جاری رہی تو آخری اوور کی ضرورت نہیں پڑے گی ،اس سے پہلے ہی وکٹیں اڑ جائیں گی ۔اس میچ کو بگاڑنے کیلئے تماشائیوں کو ڈی چوک پر لانے کیلئے دونوں طرف سے اعلانات کیے جاچکے ہیں،تیاریاں بھی جاری ہیں ۔سوال یہ ہے کہ میچ بگڑ جائے گا یا جیت اور ہار کے فیصلے پر ختم ہوگا؟

 

اس وقت حکومت کے پاس 179 وکٹیں ہیں جبکہ اپوزیشن کو یہ میچ جیتنے کیلئے مزید 10 وکٹو ں کی ضرورت ہے،اپوزیشن کے دعوے ہیں کہ ہم اپنی وکٹیں پوری کرچکے ہیں  لیکن ہم ایک اچھے انداز میں میچ جیتنا  چاہتے ہیں ۔دوسری جانب حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ جتنی مرضی کوشش کرلیں یہ میچ جیت نہیں پائیں گے،ان دعوئوں میں کتنی صداقت ہےیہ تو میچ کے اختتام پر ہی پتا چلے گا ۔عمران حکومت اور اپوزیشن کے اس میچ میں ان کھلاڑیوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے جن کی کبھی ’’باری ‘‘ نہیں آتی تھی ۔انہوں نے اپنے دام بڑھا دیے ہیں،نازونعم میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔


Tweet
حقیقت میں یہ چھوٹے کھلاڑی لیکن اونچے اونچے بھائو  ہیں ۔ق لیگ سب سے بڑی ٹرافی جیتنا چاہتی ہے وہ بھی صرف ڈیڑھ سال کیلئے۔حکومت دے یا  اپوزیشن ق لیگ کو وزارت اعلیٰ چاہئے۔پی ٹی آئی حکومت سے منہ موڑنا کیا مشکل ہے۔دوسری جانب قیمت ملے تو  ایم کیو ایم بھی پیپلز پارٹی سے ملنے کو تیار ہے۔بلوچستان میں باپ پارٹی کی قیمت بھی لگ رہی ہے،باپ کو آئندہ حکومت میں نوازنے کے وعدے کیے گئے ہیں ۔

Imran khan gya tu kon ho ga #pmpakistan #noconfidencemotion #shorts

 
اب تک  کی اطلاعات کے مطابق باپ پارٹی  کے  چار ایم این اے جام کمال کے ساتھ ہیں ،ایک ایم این اے صادق سنجرانی کے گروپ میں ہیں ،امید ہے کہ وہ  ایک بھی ہوا کا رخ دیکھ کر آجائے گا ۔باپ پارٹی فیصلہ کرچکی ہے کہ وہ  اپوزیشن کا ساتھ دے گی  لیکن ابھی کچھ چیزیں طے ہورہی ہیں ۔نئے سیٹ اپ میں ان کو کیا ملے گا؟ اس پر بھائو تائو ہورہا ہے،باپ  نئی  حکومت  میں جائیں گی  لیکن نئے چہرے پیش کیے جائیں گے۔مرکز میں تبدیلی آئے گی تو صوبے میں بھی تبدیلی آئے گی ۔باپ بلوچستان میں اپنے مفادات کی یقین دہانی چاہتی ہے۔

ایم کیو ایم کا معاملہ بھی ایک حدتک طے ہوچکا ہے،پیپلز پارٹی  متحدہ کو سندھ کی گورنر شپ دینے پر رضامند ہوچکی ہے،ساتھ ہی شہری سندھ کے مسائل حل کرنے کی ضمانت دینے پر بھی تیار ہے،چودھری بھی اندر سے ’’کٹی‘‘ کرچکے ہیں،وہ اب حکومت میں نہیں رہیں گے لیکن اگلی حکومت کا ضرور حصہ بننے کیلئے سودے بازی کررہے ہیں ۔

سارے میچ میں ایک خطرہ یہ ہے کہ 22 مارچ کو  اسلامی دنیا  کے نمائندے شہر اقتدار میں جمع ہورہے ہیں ،23 مارچ کو یوم پاکستان کی تقریب ہے،حکومت کے 27 مارچ کو ڈی چوک پر اعلان کے بدلے میں اپوزیشن نے بھی 23 مارچ  کو اپنے کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کی ۔اس صورتحال میں تصادم کا خطرہ ہے،امید یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن  حکمت اور دانش کا مظاہرہ کریں گی اور احتجاج کی کال واپس لے لیں گی ،لگتا ایسے ہے کہ اپوزیشن نے حکومت  کے جلسے کو کائونٹر کرنے کیلئے  اسلام آباد جمع ہونے کی کال دی ہے۔اپوزیشن نے ایک کی اچھی  گیند کی ہے جس پر حکومت کے آئوٹ ہونے کا زیادہ چانس ہے۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

سہارا دے کے چھوڑا ہے کسی نے

میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں