پاکستان میں’’لوٹا ‘‘کلچر کیسے عام ہوا ؟
سپین میں ایک تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے ایک سکہ لیا اور سیاستدانوں کو اس سکے کو اکیلے میں اچھال کر ٹاس کرنے کو کہا، سیاستدانوں کو بتایا گیا تھا کہ اگر سکہ گرنے پر ’ہیڈ‘ آیا تو انہیں کچھ انعام ملے گا تاہم اگر ’ٹیل‘ آئی تو کچھ نہیں ملے گا،سیاستدانوں نے یہ سکہ اچھالا اور 69فیصد نے بتایا کہ ان کا ’ہیڈ‘ آیا ہے۔ حالانکہ حقیقت میں صرف 50فیصد کا ہیڈ آیا تھا اور باقی سب نے معمولی فائدے کے لیے جھوٹ بول دیا۔
رپورٹ کے مطابق اس تحقیق میں سپین کے 816میئرز کو شامل کیا گیا تھا۔ نتائج میں سائنسدانوں نے بتایا کہ جب بھی آپ کسی سیاستدان کو کسی ایسی گیم میں شامل کریں گے جس میں جیتنے میں فائدہ ہو تو وہ جھوٹ بولے گا، سیاستدانوں کی اکثریت ایسا ہی کرتی ہے چنانچہ یہ لوگ الیکشن جیتنے اور اقتدار میں آنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ اس میں ان کا فائدہ ہوتا ہے۔حقیقت میں بھی کیا ایسا ہی ہے؟ تو آپ کو نفی میں جواب دینے والا کوئی نہیں ملے گا بلکہ سب ہاں میں ہی جواب دینگے ،پروپیگنڈا کے بادشاہ گوئبلز کہتے تھے کہ اگر آپ جھوٹ بولیں اور اْسے د وہراتے چلے جائیں تو وہ سچ لگنے لگتا ہے وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ’جتنا بڑا جھوٹ بولو گے اْتنا اس پر یقین کیا جائے گا۔
‘
پاکستان کی سیاست میں ایک بار پھر بھونچالی کیفیت ہے،اعصابی جنگ جاری ہے،وزیر اعظم کو ہٹانے کیلئے جوڑ توڑ جاری ہے،حکومت کے اتحادی واضح پوزیشن اختیار نہیں کررہے تو حکومت کے اندر اتنی ٹوٹ پھوٹ ہے کہ سمٹنے کا نام نہیں لے رہی ۔کچھ تو وزرا کے بارے میں بھی یہ خیال ہے کہ وہ بھی عمران خان کو چھوڑ کر مخالف کیمپ میں جاسکتے ہیں ۔
لوٹے کنگ میکر تھے،کنگ میکر ہیں ،لوٹے کب کس جانب لڑھک جائیں فیصلہ کہیں اور ہوتا ہے،یہ پاکستانی سیاست میں لازم و ملزم ہیں ۔متعدد نے اتنی پارٹیاں بدلیں کہ ان کیلئے شاید اب کوئی پارٹی بچی ہی نہیں ۔
فافن کی ایک رپورٹ کے مطابق 2018 کے عام انتخابات میں 248 سیاسی شخصیات نے پارٹی بدلی ۔38 فیصد یعنی 92 شخصیات نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی ۔پنجاب میں 50 فیصد کامیاب امیدواروں نے وفاداری تبدیل کی ،تحریک انصاف میں شامل ہونے والے زیادہ لوگ ن لیگ کے تھے۔عمر ایوب 2002 میں ق لیگ کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے،2013 میں ن لیگ کا ٹکٹ لیا ،2018 میں پی ٹی آئی جوائن کی ۔ہر دور کی طرح آج بھی وزیر ہیں ۔فواد چودھری پرویز مشرف کے ترجمان رہے، پہلے پیپلز پارٹی جوائن کی ،پھر 2013 میں ق لیگ میں شامل ہوئے،2016 میں پی ٹی آئی کا حصہ بن گئے،غلام سرور پی ٹی آئی میں آنے سے قبل پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں رہ چکے ہیں ۔
پرویز خٹک نے 1988 اور 1993 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی نشست جیتی ۔2008 میں پیپلز پارٹی شیر پائو کا حصہ بنے،2011 میں پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔شفقت محمود پیپلز پارٹی کے سینیٹر تھے،مشرف حکومت کا حصہ رہے،شہباز شریف کے مشیر بھی رہے،2011 میں عمران خان کے ساتھی بن گئے۔مخدوم خسرو بختیار پی ٹی آئی میں شامل ہونے سے پہلے ق لیگ اور ن لیگ میں وزیر رہ چکے ہیں ۔راجہ ریاض پہلے پیپلز پارٹی کے وزیر رہے،پھر پی ٹی آئی میں گئے،اب ن لیگ میں جانے کے امکانات ہیں ۔رمیش کمار نے بھی بار بار پارٹی بدلی ۔2013 کے الیکشن میں ق لیگ کے 121 لوٹے ،ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت بنتے دیکھ کرشامل ہوگئے۔2018 میں 99 ق لیگی لوٹے بنے۔مشرف دور میں 140 ن لیگیوں نے ق لیگ میں شمولیت اختیار کرلی تھی ۔لوٹا کریسی کی بنیاد منظور وٹو نے رکھی تھی ۔
اگر نؒتاریخ پر نظر دوڑائیں تو لوٹا کریسی کی ت تاریخ بھی پرانی ہے، لوٹا کریسی ہماری سیاست کا بدنما داغ ہے جو تیزاب بھی دھوئیں تو نہیں اترے گا ۔کسی کو یاد ہو کہ نہ یاد ہو کہ راتوں رات ریپبلکن پارٹی بنی اور ڈاکٹر خان صاحب اس کے صدر بن گئے،آئی آئی چندریگر اور خواجہ ناظم الدین کو لوٹوں کی وجہ سے جانا پڑا ۔پہلے دور حکومت میں نوازشریف زوروں پر تھے،عدالت سے جیت کر آگئے تھے،پتا چلا کہ ن لیگ کے سارے لوگ دوسری پارٹی میں چلے گئے ہیں ۔منظور وٹو ان کی خواہش کیخلاف وزیر اعلیٰ پنجاب بنا دیے گئے۔ملٹر ی ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے تو یہ کام ثواب سمجھ کر کیا ۔ن لیگ کو توڑ کر ق لیگ بنائی ،بندے پورے نہ ہوئے تو پیپلز پارٹی میں بھی نقب لگائی اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بناڈالی ۔لوگ دو تین طریقوں سے بدلتے ہیں ،یہ صرف پیسہ لے کر نہیں بدلتے ،ایک اشارے پر وفاداری بدل لیتے ہیں ۔یہ لوگ گروی ہوتے ہیں،یہ عوام کے نہیں کسی اور کے احسان مند ہوتے ہیں۔وہ اشارہ کرتے ہیں کھڑے کھڑے بے وفا ہوجاتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارا کوئی بھی ادار ہ حقیقی انداز میں کام نہیں کرسکا ۔پارلیمنٹ بھی نہیں ،سیاستدان بھی نہیں ۔ان لوگوں کے ضمیر نہیں مفادات جاگتے ہیں ۔اب جب لوگوں کو نظر آیا کہ اگلے الیکشن میں عمران خان کے ٹکٹ پر نہیں جیت سکیں گے تو انہوں نے پی ٹی آئی کوخیر باد کہنا شروع کردیا ۔قانون میں یہ عمل روکنے کیلئے سب کچھ موجود ہے لیکن عمل نہیں کیا جاتا ،جب تک جماعتیں کمزور ہیں تب تک ایسا ممکن نہیں ۔اس بار سپریم کورٹ نے اس عمل کو نہ روکا تو پھر کوئی نہیں روک سکے گا ۔عوامی نمائندے بکتے رہیں گے ووٹر روتے رہیں گے۔
Comments
Post a Comment