شہباز شریف وزیر اعظم کیوں نہیں؟
شہباز شریف کو ان کے مصاحب 'شہباز سپیڈ' کے نام سے پکارتے ہیں اور سنا ہے کہ کل کے وزیراعلیٰ پنجاب کو یہ سب اچھا لگتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ انہیں یہ 'لقب' ایک چینی شخصیت نے دیا تھا جو صوبہ پنجاب میں جاری ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کی رفتار سے بہت متاثر ہوئے تھے۔مسلم لیگی قیادت شہباز شریف کے زیراستعمال اس لقب کی روح سے اتفاق کرتی ہے۔ گزشتہ چند روز میں لیگی قیادت میں یہ رائے تقریباً اتفاق رائے کی حیثیت اختیار کی چکی ہے کہ شہباز شریف کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے الگ کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ پنجاب میں جاری ترقیاتی منصوبے مقررہ وقت، یعنی آئندہ انتخابات سے پہلے مکمل نہیں ہو پائیں گے جس کا پارٹی کو انتخابات کے دوران نقصان ہو گا۔
بات ماضی کی کریں تو شہباز شریف کے وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنتے ہی مسلم لیگ ن پنجاب میں ایسی کھینچا تانی شروع ہوئی کہ جس کی توقع شاید نواز شریف حتیٰ کہ شہباز شریف کو بھی نہیں تھی۔ وزارت اعلیٰ کے متعدد امیدوار اپنی اپنی لابیز کے ساتھ اتنی تیزی سے سامنے آئے کہ خود شریف خاندان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ایک سینئر مسلم لیگی کے بقول ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کئی برسوں سے پنجاب کابینہ میں ایک ساتھ کام کرنے والے لیگی کارکن اچانک متحارب گروہوں کے نمائندے بن گئے تھے۔ یہ صورتحال ظاہر ہے مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کے خیال میں پارٹی مفاد میں ہر گز نہیں تھی اور اسے فوری طور پر ختم کرنا ضروی تھا۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی سربراہی کے امیدوار نہ صرف پارٹی بلکہ شریف خاندان کے اندر بھی موجود تھے اور اگر خود نہیں تھے تو ان کے اپنے اپنے امیدوار ضرور تھے۔ لیگی ذرائع کے مطابق ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ شہباز شریف اور نواز شریف اہم سیاسی معاملات پر دو مختلف کیمپوں میں دکھائی دیں لیکن وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے امیدوار کے انتخاب کے دوران ایسا کئی بار محسوس کیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ مریم صفدر اپنے کسی معتمد کو وزیراعلیٰ بنوانے کی خواہشمند تھیں جبکہ 'حمزہ کیمپ' یعنی شہباز شریف کے صاحبزادے کا انتخاب کوئی اور تھا۔ اورشریف خاندان کے یہ دونوں چشم و چراغ اپنے اپنے امیدوار کے لیے بھرپور لابئنگ شروع کر چکے تھے۔
جو پارٹی پنجاب جیت لیتی ہے وہی مرکز میں حکومت بناتی ہے۔ پاکستان کی انتخابی سیاست کی یہ حقیقت شہباز شریف اور وزارت عظمیٰ کے عہدے کے درمیان دیوار کی طرح حائل ہو چکی ہے۔نواز شریف نے وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے فوراً بعد پارٹی میٹنگ میں اپنے جانشین کے طور پر شہباز شریف کا نام تجویز کیا جسے اس وقت متفقہ طور پر منظور تو کر لیا گیا لیکن جب اس تجویز کے حق میں آنے والا شور تھما تو خاص طور پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے لیگی رہنماؤں نے اپنے قائد کے سامنے تصویر کا ایک اور رخ پیش کیا، اور وہ رخ یہ تھا کہ آئندہ انتخابات سے قبل پنجاب میں مسلم لیگ کا زور توڑنے کی بھرپور کوشش متوقع ہے اور اس کے لیے ان کے مضبوط امیدواروں کو پارٹیاں بدلنے کی طرف راغب کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ پارٹی کو تنظیمی طور پر بھی کمزور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
آثار یہی بتاتے ہیں کہ چوہدری نثار کے لاکھ سمجھانے کے باوجود نواز شریف محاذ آرائی کی سیاست کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔سینے میں دفن مبینہ رازوں سے پردے اٹھانے کی باتیں کرنا، سپریم کورٹ کے فیصلے کو پہلے سے تیار شدہ قرار دینا اور موٹر وے کے بجائے جی ٹی روڈ سے لاہور جانا، یہ سب اشارے ہیں کہ نواز شریف چوہدری نثار کے مشوروں کے برعکس خاموشی سے گھر جانے والے نہیں ہیں۔ایسے میں جب وہ محاذ آرائی کے راستے پر چلنے پر بضد نظر آتے ہیں، شہباز شریف ان کے وزیراعظم کے لیے موزوں ترین شخص نہیں ہیں۔ شہباز شریف کے بارے میں اب یہ بات خاصی کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ وہ محاذ آرائی کی بجائے مفاہمت کی سیاست کے داعی ہیں اور نواز شریف کو بھی اسی طرزِ سیاست پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ایسے وقت میں کیا شہباز شریف کے لیے وزیراعظم بننے کا صحیح موقع ہے کہ جب نواز شریف بالکل وہ کرنے جا رہے ہیں جس سے شہباز شریف انہیں روکنے کی کوشش کرتے رہے ہیں؟
Comments
Post a Comment