عمران خان استعفیٰ کیوں دیں؟

ہر طرف تالیوں کی گونج ،عمران خان زندہ باد کے نعرے ،اب آیا ہے ہینڈ سم وزیر اعظم ،اب ملک کے حالات بدلیں گے،اب پاکستان وہ نہیں رہے گا جو شریفوں اور زرداریوں نے بنائے رکھا،پاکستان کی محرومیاں ختم ہوںگی ،یہاں عدل و انصاف ہوگا،ظلم کا خاتمہ ہوگا،ہر نوجوان کو روز گار ملے گا‘‘18اگست 2018 کو یہ منظر ایک ٹی وی چینل کے نیوز روم کا تھا ،جب وزیر اعظم عمران خان حلف اٹھارہے تھے،حلف کے دوران جب وہ ایک لفظ پر رکے اور ہنسے تو ایک ’’پٹواری‘‘کی آواز آئی ’’یہ نحوست ثابت ہوگا‘‘ ۔اس کے منہ سے یہ نکلنا تھا کہ وہاں موجود کپتان کے دیوانے اس کی طرف لپکے،غضب ناک نظروں سے دیکھا۔ایک دیوانی تو مارنے پر اتر آئی۔آج انیس ،بیس ماہ بعدحالت یہ ہے کہ جب ٹی وی پر کپتان آتا ہے تو وہی دیوانے فوری چینل بدل لیتے ہیں۔


پی ٹی آئی کے اہم اتحادی ساتھ چھوڑ رہے ہیں،تحریک انصاف کے اندر سے اختلافات کی خبریں آرہی ہیں،ڈھول کا پول کھل رہا ہے،وفاق اور پنجاب حکومت بنانے کا اہم کردار لندن جاچکا ہے،ہیلی کاپٹر کو بریکیں لگ چکی ہیں،اے ٹی ایم مشینیں خالی ہیں،ن لیگ ،پیپلز پارٹی اوردیگر اپوزیشن جماعتیں مسلسل وزیر اعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کررہی ہیں۔ایسی کیا وجہ ہے کہ لوگوں کا’’تبدیلی ‘‘سے اتنا جلدی جی بھر گیا؟جس حکومت کے قائم ہونے کے صرف ڈیڑھ،دو سال بعد ہی استعفیٰ مانگ لیا جائے، اسے ہم آئیڈیل تو نہیں کہہ سکتے،اپوزیشن کی ڈیمانڈ اپنی جگہ۔اپوزیشن کا تو کام بھی یہی ہوتا ہے کہ حکومت میں سے کیڑے نکالنا،اپنے لئے راہ ہموار کرنا۔حکومتی ارکان،پی ٹی آئی ورکرز اور کپتان کو آئیڈیل ماننے والوں میں اتنی بے چینی کیوں ہے؟ فواد چودھری کہتے ہیں ہماری حکومت کے پاس پانچ ماہ ہیں،وزیر اعظم نے بھی کابینہ پر واضح کردیا ہے کہ ان پانچ ماہ میں کچھ کرلو اگر کر سکتے ہوتو۔

جب وزیر اعظم ہینڈ سم ہے،ایمان دار ہے، ساری جائیداد ملک میں ہے،باہر کوئی اثاثے نہیں،عوام سے کچھ  چھپاتا نہیں،اپنے دور حکومت میں کرپشن نہیں کی ،اپنے خرچے پر گھر چلاتا ہے،اپنی جیب سے ملا زموں کو تنخواہ دیتا ہے،وزیر اعظم ہائوس آنیوالوں کو صرف چائے پلاتا ہے،دودھ کیلئے رکھی گئی بھینسیں تک بیچ دیں ،گاڑیاں کم کردیں،جہاں بھی جاتا ہے صرف ہیلی کاپٹر استعمال کرتا ہے،پورے ملک کو اسلام آباد اور نتھیا گلی سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے،دیوار کے پیچھے کیا ہورہا ہے؟ پہلے ہی جان جاتا ہے؟ بہترین سائنسدان ، باصلاحیت ڈاکٹر ،مذہبی گفتگو کرے تو بہت بڑا مبلغ ،معیشت کی بات ہو تو ماہر معاشیات ،ملکوں کی سرحدوں کا ذکر ہوتو بہترین جغرافیہ دان ،موسموں کا حال بتانے والا،دور اندیش اور حقیقت پسند وزیر اعظم ۔اتنی خوبیاں ہونے کے باوجود عمران خان  استعفیٰ کیوں دیں؟

 آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں،اگر میں غلط نہیں ہوں تو جب تحریک انصاف حکومت میں آئی تو ایک منشور دیا تھا،اس منشور پر کتنا عمل ہوا؟ کتنے کام ہوگئے؟ کتنے ابھی باقی ہیں؟

Maryam Nawaz reaction on #Bajwa intervention #noconfidencemotion #shorts

عمران خان صاحب وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ وزارتوں کے خود وزیر بھی ہیں ،سب سے اہم وزارت خزانہ ہے، اس کو دیکھا جائے تو ہمیں انذازہ ہوجائے گا کتنا کام ہوا ہے،اس وقت خزانے کا حال یہ ہے کہ اب تک غیرملکی قرضوں میں دس ہزار ارب تک اضافہ ہوچکا ہے،معاشی حالت یہ ہے کہ 68سال میں پہلی مرتبہ جی ڈی پی مائنس ہوچکی ہے،بجٹ تاریخ ساز خسارے میں ہے، ترقیاتی فنڈز بند ہیں، کوئی نیا منصوبہ زیر غور نہیں کوئی اصلاحاتی ایجنڈا نہیں ہے۔ اس لئے اگلے 3سال میں بہتری کی کوئی امید نہیں۔اسی  وزارت کی جڑواں بہن وزارت تجارت ہے اس کے وزیر بھی عمران خان صاحب خود ہیں،درآمدات کم کرنے اور برآمدات بڑھانے کا وعدہ ہوا تھا ،برآمدات کتنی بڑھیں اس کا اندازہ جی ڈی پی سے لگایا جاسکتا ہے۔سب سے اہم اور اولین ترجیح احتساب تھا ،جس کے وزیر عمران خان صاحب خود اور معاون شہزاد اکبر صاحب ہیں،انیس ماہ کی مشقت کے بعد بھی ایک دھیلا بھی کرپٹ لوگوں سے نہیں نکلوایا جاسکا،نواز شریف اسی طرح ایون فیلڈ میں مقیم ہیں،اسحاق ڈار کی جائیدادیں اسی طرح قائم ہیں،زرداری صاحب کے محل اسی طرح سلامت ہیں،بی آرٹی پشاور کے کھڈے شفافیت،میرٹ کا منہ چڑا رہے ہیں،فارن فنڈنگ کیس کی فائلوں پر گرد جم چکی ہے،ہاں اتنا ضرور ہوا ہے کہ اپوزیشن رہنما جیلوں کے چکر لگارہے ہیں اور حکومت کو طوالت مل رہی ہے۔

وزیر پٹرولیم بھی عمران خان ہیں،پہلے پٹرول مہنگا کیا گیا،جب عالمی مارکیٹ میں سستا ہوا تو پاکستان سے غائب ہوگیا ،ان کے معاون خاص خود اسی کاروبار سے منسلک ہیں۔

وزیر صحت بھی عمران خان صاحب خود ہیں،ڈاکٹر ظفر مرزا نام کے معاون ہیں جن کی کسی بات پر توجہ نہیں دی جاتی ،اگر ان کی بات  مانی جاتی تو کورونا کا یہ حال نہ ہوتا،دنیا بھر سے کورونا کے نام پر پیسے اکٹھے کیے جارہے ہیں ،لیکن اب تک کوئی ہسپتال نہیں بنا،صحت میں قابل فخر کام نہیں ہوا ،بلکہ ضد اور انا کے باعث صورتحال ہاتھ سے نکلتی دکھائی دیتی ہے،پہلے ادویات غائب کی گئیں ،پھر علاج مہنگا کردیا گیا۔ادویات میں سمگلنگ کے الگ الزامات ہیں۔


وزیر ماحولیاتی تبدیلی بھی عمران خان ہیں ،جہاں تبدیلی ہی تبدیلی نظر آتی ہے،ملک کے چار موسموں نے اپنی نسل بڑھا کر بارہ کرلی ہے،وزیر پالیمانی اموربھی عمران خان ہیں،اس وزارت کے تحت قانون سازی ہمارے سامنے ہے،پارلیمان سے قانون پاس کروانے کے بجائے ایوان صدر میں ’’آرڈیننس فیکٹری‘‘لگادی گئی ،پارلیمانی تقسیم اتنی ہے کہ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی ایک میٹنگ تک نہیں ہوسکی ۔

 سی پیک اور کنسٹرکشن کا شعبہ بھی ان کو دے دیا گیا جن کی اس میں دلچسپی تھی۔ افغانستان، چین، بھارت اور امریکہ سے سارے معاملات طاقت ور ادارہ خود طے کررہا ہے۔ وزیر اعظم صرف ٹوئیٹ کررہے ہیں،ظاہر ہے حکومت اور فوج ایک پیج پر ہے۔جب حکمرانوں سے سوال کیا جاتا ہے کہاں ہے کارکردگی تو جواب ملتا ہے کورونا وائرس۔کورونا تو فروری میں آیا پہلے کونسی دودھ ،شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں،کورونا اللہ کا عذاب ہے،اللہ کا عذاب بھی تب آتا ہے جب حکمران اچھے نہ ہوں،چور ہوں،کرپٹ ہوں۔یہی عمران خان صاحب نے بھی کہا تھا۔آج پھر سے اس’’پٹواری‘‘کی بات یاد آرہی ہے جو حلف کے وقت سنی تھی۔

اب فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے کہ فالٹ لائن کہاہے،غلطی کس جگہ ہے،اللہ حکومت دیتا ہے تو اسے مختلف عوام دیکھ رہے ہوتے ہیں،اسے جج کررہے ہوتے ہیں، پہلا قدرت اور وقت ہے،دوسرے وہ ہیں جو حکومتیں بنانے اور گرانے والے (اسٹیبلشمنٹ )تیسرے عوام(آواز خلق ناکارہ خدا)۔لگتا ہے وقت ختم ہوچکا ،قدرت اپنا فیصلہ سنانے والی ہے،حکومت بنانے والے اکتا چکے ہیں،عوام آہستہ آہستہ بولنے لگے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کو اپوزیشن سے اتنا خطرہ نہیں جتنا بری معیشت، کورونا کی وبا کی مس ہینڈلنگ اور برے طرز حکمرانی سے ہے،اگر تحریک انصاف نے ان اہم ترین معاملات کو نہ سنوارا تو پھر کسی نئے متبادل کی تلاش شروع ہو جائے گی۔ بھٹو اور نواز شریف کا متبادل بھی تو آ گیا تھا، عمران کا بھی کوئی متبادل مل ہی جائے گا۔

جب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے تو پھر ان کے سامنے کوئی ڈھال پائیدار نہیں رہتی۔ رکاوٹیں ریت کی دیواریں بن جاتی ہیں، تماشا دیکھنے والے بھی ان کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ ہوا کا رخ بدلنے پر کشتیوں کے رخ موڑ دیئے جاتے ہیں، صدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی، چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی۔

نوٹ :اظہر تھراج کا یہ بلاگ ایکسپریس نیوز میں شائع ہوا


Comments

Popular posts from this blog

تحریک عدم اعتماد: میچ آخری اوورز میں داخل

سہارا دے کے چھوڑا ہے کسی نے

میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں