سیاسی کشمکش کا انجام کیا ہوگا؟
وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کیلئے حکومت خوب جتن کررہی ہے،اتحادیوں کے پاس حکومتی وفد وزیر اعظم کا پیغام لے کر پہنچا ۔یہ ملاقات کتنی سود مند رہی ؟ وزیر اعظم جارحانہ موڈ میں ہیں ؟ الیکشن کمیشن پر جانبداری کا الزام بھی لگایا،بات کس طرف چل نکلی ہے؟ انجام کیا ہوگا ؟
یہ جو کچھ ہورہا ہے ہم اس کے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں ،سیاسی جماعتوں اور لیڈرز کا بخار عوام اور لوگوں تک منتقل ہورہا ہے،ریلیاں اور جلسے ہورہے ہیں ، وزیر اعظم کا فن تقریر تھم ہی نہیں رہا ،حکومت کا کام ٹھپ ہوچکا ہے،صرف جلسے اور تقاریر ہورہی ہیں ۔آخری وقت پر اتحادیوں کے پاس جانے جیسے جتن کامیاب نہیں ہوتے۔وہ حکومت کے ساتھ تھے تو سب ٹھیک تھا ،اب سب کچھ اکھڑا ہوا ہے۔بات منتوں ترلوں تک آگئی ہے۔اشاروں پر چلنے والے کیا ایک اشارے پر وزیر اعظم کے پاس نہیں آسکتے تھے۔وجہ کیا ہے کہ ان کے در پر آنے کی ضرورت پڑی ہے۔بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے ۔جلسے کے بعد ٹمپریچر کم ہونا شروع ہوجائے گا۔
وزیر اعظم بہتر بتا سکتے ہیں کہ نواز شریف آرہے ہیں یا نہیں ۔پہلی مرتبہ ایوان میں اپوزیشن مضبوط نظر آتی ہے اور میدان میں حکومت ۔جب لوگ حکومت میں ہوتے ہیں شاید یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارے احکامات ہی چلنے ہیں ۔سدا بادشاہی اللہ کی ہے،جب تک آپ کسی کو سیاسی طور پر شکست نہ دے لیں تب تک یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ پارٹی ختم ہوگئی ۔ایک صفحہ والوں کو نظر آگیا ہے کہ اقتدار کے مزے تو یہ خود لیتے ہیں ٹارگٹ ہمیں کرتے ہیں ۔وہ فریق نہیں بن رہے ،وہ چاہتے ہیں سیاسی حل نکلے۔اتحادی کسی اشارے کے منتظر ہیں ۔
یہ جو جلسے ہورہے ہیں میں ان کو عوامی طاقت کا مظاہرہ نہیں کہوں گا ،یہ اپنے ورکرز کی طاقت کے مظاہرے ہیں،یہ پارٹی طاقت کو ظاہر کرنے کیلئے ہیں ۔تھوڑے بہت عوام بھی شغل کیلئے آجاتے ہیں،یہ تینوں پارٹیاں چیزوں کو پھیلا رہے ہیں ۔یہ شو اچھے کرلیتے ہیں کیونکہ ان بااعتماد لوگ اپنے ورکز اور دوستوں کو لے آتے ہیں ،جلسے حکومتوں کی طویل المدتی کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتے لیکن ان جلسوں میں لوز زبان استعمال کی جارہی ہے۔پارلیمانی حکومت میں لوگوں کو ساتھ رکھنا ہوتا ہے،عمران خان نے اسے بیوروکریٹک انداز میں چلایا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اتحادی کس کے پاس جاتے ہیں ۔حکومت کو پتا چلے گا کہ پارلیمانی نظام حکومت ون مین شو نہیں ہوتا ۔مذہبی کارڈ تو شروع سے استعمال ہورہا ہے۔انداز مختلف تھا۔
زمینی حقائق یہی ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت اقلیتی حکومت ہے،اس کو اتحادیوں کے ذریعے سپورٹ دی گئی ہے،تحریک عدم اعتماد کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی حکومت ختم ہوجائے اور وہ حکومت میں آجائیں ۔اتحادیوں کے پاس ایک آپشن آگیا ہے کہ وہ کس کے ساتھ جائیں۔اسی لئے وہ اس موقع کو استعمال کررہے ہیں ،وزیر اعظم اپنے اتحادیوں کے پاس جارہے ہیں ۔منحرف ارکان کا فیصلہ تو سپریم کورٹ میں ہونا ہے،اطلاعات ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو وزیر اعظم فوج کو تنقید کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔دوسری بات وہ آخری گیند تک لڑیں گے،استعفیٰ نہیں دیں گے،وہ 6 ماہ تک عام انتخابات کروانے کی طرف جاسکتے ہیں ۔وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے حوالے سے کچھ باتیں چل رہی ہیں ۔ہوسکتا ہے کوئی ڈویلپمنٹ ہوجائے۔
Comments
Post a Comment