جبر اور صبر کی جنگ

 جبر اور صبر دو متضاد  رویوں کا نام ہے،ظالم جبر کرتا ہے اور اس سے متاثرہ صبر ۔یہ ظالم اور مظلوم کی جنگ ہے،جبر اور صبر کا مقابلہ ازل سے جاری ہے،جبر عارضی طور پر تو جیت جاتا ہے لیکن مستقل جیت صبر کی ہوتی ہے،صبر قید کی زنجریں توڑ دیتا ہے،صبر دہکتی آگ کو ٹھنڈا ہونے پر مجبور کردیتا ہے،صبر ظالموں کو دریا برد کردیتا ہے اور کبھی کبھار صبر تحریک بنتا ہے اور پھر یہ تحریک انقلاب لے آتی ہے۔

 

 قبل ازوقت عام انتخابات ممکن ہیں؟

دنیا کی تاریخ جبر اور صبر کے واقعات سے بھری پڑی ہے،فرعون نے جب اپنی طاقت کے بل بوتے پر ظلم کی انتہا کی تو اس وقت کے مظلوموں نے صبر کیا ،اللہ نے ان کو حضرت موسیٰ  کی صورت مسیحا عطا کیا ،حضرت موسیٰ اوران کے پیروکاروں پر زمین تنگ کی گئی تو انہوں نے صبر کیا ،اللہ نے ان کو اس صبر کے انعام کے طور پر فرعون کی موت عطا کی ،وہ فرعون جس کو آج تک نہ پانی نے قبول کیا اور نہ ہی زمین نے۔مصر کے میوزیم میں ممی کی صورت میں نشان عبرت بنا ہوا ہے۔نمرود ظالم تھا ،اس نے حضرت ابراہیم کو  آگ میں پھینکا ،صبر کرنے والے نے صبر کیا تو وہی آگ گلزار بن گئی ۔تاریخ بتاتی ہے کہ نمرود جب مرا تو ایک مچھر کے ناک میں جانے سے مرا ۔صبر کی سب سے بڑی مثالیں طائف،مدینہ اور کربلا میں قائم ہوئیں جب میرے اور آپ کے نبی ﷺ نے ہجرت کی اور ان کے نواسے حضرت امام حسین ؓ نے باطل کیخلاف حق کا علم بلند کیا ۔تفصیل میں جائے بغیر بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہاں ظلم کی انتہا ہوگئی تو صبر کی بھی انتہا تھی ۔صبر کرنے والوں کا آج بھی ہے،کل بھی رہے گا ،ظالموں کا انجام نشان عبرت ۔

 مزے مزے کے بلاگ پڑھیں

یہ نہیں کہ جبر اور صبر کی جنگ ختم ہوگئی ،آج کے جدید دور میں جاری ہے،یہاں جبر کے پیمانے ،آلات تبدیل ہوگئے ،مظلوم آج بھی صبر کے ہتھیار سے فتح حاصل کررہا ہے،تازہ مثال ہمارے پڑوس میں رقم ہوئی ،افغانستان میں ظلم کرنے والوں نے ہر قسم کا اسلحہ استعمال کیا ،قید خانے میں قیدیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے،ناخن کھینچے گئے،جسم ادھیڑا گیا،آہنی پنجروں میں کسا گیا ،پھر بھی صبر جیت گیا ،20 سال تک صبر نے جبر کا مقابلہ کیا آخر جابر اور ظالم کو دم دبا کر بھاگنا پڑا ۔ یہ جنگ 2 لاکھ 42 ہزار سے زائد انسانوں کی زندگیاں نگل گئی ،جنگ نے 71 ہزار 344 افغان شہریوں کی جانیں لیں ،جن میں 7792 بچے،3219 خواتین بھی ماری گئیں ،78 ہزار 314 افغان فوجی ،پولیس اہلکار جنگ کا ایندھن بنے،اتحادی افواج کے 3586 فوجی ہلاک ہوئے،2442  امریکی فوجی ،1144 نیٹو فورسز کے اہلکار شامل تھے،90 ہزار امریکی فوجی زخمی ہوئے،20ہزار مستقل معذور ہوگئے،جنگ میں 84 ہزار 191 طالبان ،قبائیلی جنگجو اور متحارب فریق مارے گئے،3936 امریکی کنٹریکٹرز ،549 سماجی کارکن اور 136 صحافی ہلاک ہوئے۔۔کاسٹ آف وار کی ریسرچ کے مطابق 2ہزار 226 ارب ڈالرز میں سے 933 ارب ڈالرز جنگ پر خرچ ہوئے،معذور فوجیوں  اور میڈیکل پر 2050 تک 1293 ارب ڈالر خرچ ہوں گے،ادھار پر لڑی جانے والی جنگی اخراجات پر 600ارب ڈالرز سود بھی ادا کرنا ہوگا ۔

 

ظلم طویل ہوتا ہے تو صبر بھی طویل ہوتا ہے،ریاستیں ،افراد اپنے مفادات کیلئے رعایا پر جبر کرتے ہیں ،مقبوضہ کشمیر کو دیکھ لیجئے ظلم طویل ہوا ہے تو مظلوموں کے صبر میں بھی کمی نہیں ،شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں کوئی شہید نہ ہو ،کوئی اپاہج نہ ہو،کوئی متاثرہ نہ ہو،پھر بھی صبر سے جبر کا مقابلہ کررہے ہیں،اس لحاظ سے فلسطین بھی مقبوضہ کشمیر کا جڑواں بھائی ہے،فلسطین میں بھی جبر کی انتہا ہوئی تو صبر بھی سینہ تان  کر مقابلہ کررہا ہے۔ایک دن آئے گا جبر اوندھے منہ خاک ہوجائے گا اور صبر کا پرچم بطور فاتح لہرائے گا۔

 

ہماری حکومت ، ریاست جو کھیل آج ملک کی شاہراہوں  پر کھیل رہی ہے ،یہی کھیل گزشتہ ادوار میں بھی کھیلے گئے ،جب بھی دہشتگردی ہوئی ،حکومتی جبر کی وجہ سے ہوئی ،حکومتی جبر کے بدلے میں ردعمل آتا ہے،تاریخ میں جائیں تو اسفند یار ولی کے ناخن ادھیڑے گئے،اے این پی والے افغانستان میں جاکر بیٹھ گئے،جب حالات ٹھیک ہوئے تو وہی لوگ پاکستان کی پارلیمنٹ کے رکن بنے،ضیا الحق نے بھٹو جیسے لیڈر کو پھانسی دے کر بڑی زیادتی کی ،ظلم کیا ،بھٹو کے بیٹے افغانستان میں بیٹھ گئے اور الذولفقار بنائی ۔جب حالات ٹھیک ہوئے تو وہی سندھ اسمبلی میں آکر بیٹھ گئے،پرویز مشرف نے جب باجوڑ مدرسے پر امریکی حملے کا سارا ملبہ اپنے اوپر لیا اور فوج پر گند پھیلا،لال مسجد کا واقعہ ہوا ،طالبات کو مدرسے میں بموں سے مارا گیا ،ریاستی جبر  کے ردعمل میں ظلم بڑھا ،دہشتگردی پھیلی ،پاک فوج نے آپریشن کیا ،کچھ دہشتگرد مارے گئے ،کچھ افغانستان بھاگ گئے،ریاست آج انہی سے بات چیت کررہی ہے،انہی کو قومی دھارے میں لانے کی بات کررہی ہے،حکومت اور ریاست کو اس حد تک نہیں جانا چاہئے کہ واپسی کا کوئی راستہ ہی نہ بچے اور قوم کا نقصان ہوجائے۔

 

تاریخ بہترین استاد ہے،اس استاد سے ہر ظالم ،جابر کو سیکھنا چاہئے،یہ استاد بتاتا ہے کہ جیت ہمیشہ صبر کی ہوتی ہے،جبر کی نہیں۔جبر سے عارضی طور پر معاملات کو دبایا جاسکتا ہے،مرہم سے جسم پر لگے  زخم کو مٹایا جاسکتا ہے رویوں اور اقدامات سے روح پر لگے زخم کو مند مل نہیں کیا جاسکتا ،یہ کسی وقت بھی چوٹ لگنے سے پھر تازہ ہوجاتا ہے،روح کے زخم جب تازہ ہوتے ہیں تو یہ مظلوموں کو متحد کرتے ہیں،یہ اتحاد تحریک بنتی ہے ،پھر یہی اتحاد انقلاب لاتے ہیں۔


Comments

Popular posts from this blog

تحریک عدم اعتماد: میچ آخری اوورز میں داخل

سہارا دے کے چھوڑا ہے کسی نے

میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں