لوٹے:کون کب اور کتنے میں بکا؟

لوٹے کنگ میکر تھے،کنگ میکر ہیں ،لوٹے کب  کس جانب لڑھک جائیں فیصلہ کہیں اور ہوتا ہے،پاکستانی سیاست میں لازم و ملزم ہیں ۔متعدد نے اتنی پارٹیاں بدلیں کہ ان کیلئے شاید اب کوئی پارٹی بچی  ہی نہیں ۔فافن  کی ایک رپورٹ کے مطابق  2018 کے عام انتخابات میں 248  سیاسی  شخصیات نے پارٹی بدلی ۔38 فیصد یعنی 92 شخصیات نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی ۔پنجاب میں 50 فیصد  کامیاب امیدواروں نے وفاداری تبدیل کی ،تحریک انصاف میں شامل ہونے والے زیادہ لوگ ن لیگ کے تھے۔عمر ایوب 2002 میں ق لیگ کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے،2013 میں ن لیگ کا ٹکٹ لیا ،2018 میں پی ٹی آئی جوائن کی ۔ہر دور کی طرح آج بھی وزیر ہیں ۔فواد چودھری  پرویز مشرف کے ترجمان رہے،  پہلے پیپلز پارٹی جوائن کی ،پھر 2013 میں ق لیگ میں شامل ہوئے،2016 میں پی ٹی آئی کا حصہ بن گئے،غلام سرور پی ٹی آئی میں آنے سے قبل پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں رہ چکے ہیں ۔



 

پرویز خٹک نے 1988 اور 1993 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی  کی نشست جیتی ۔2008 میں پیپلز پارٹی شیر پائو کا حصہ بنے،2011 میں پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔شفقت محمود پیپلز پارٹی کے سینیٹر تھے،مشرف حکومت کا حصہ رہے،شہباز شریف کے مشیر بھی رہے،2011 میں عمران خان کے ساتھی بن گئے۔مخدوم خسرو بختیار پی ٹی آئی میں شامل ہونے سے پہلے ق لیگ اور ن لیگ میں وزیر رہ چکے ہیں ۔راجہ ریاض پہلے  پیپلز پارٹی کے وزیر رہے،پھر پی ٹی آئی میں گئے،اب ن لیگ میں جانے کے امکانات ہیں ۔رمیش کمار نے بھی بار بار پارٹی بدلی ۔2013 کے الیکشن میں ق لیگ کے 121 لوٹے ،ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت بنتے دیکھ کرشامل ہوگئے۔2018 میں 99 ق لیگی لوٹے بنے۔مشرف دور میں 140 ن لیگیوں نے ق لیگ میں شمولیت اختیار کرلی تھی ۔لوٹا کریسی کی بنیاد منظور وٹو نے رکھی تھی ۔


وزیر اعظم ایک مخصوص شخص کو آرمی چیف لگانا چاہتے ہیں کیا یہ ان کی خواہش پوری ہوگی؟

سینئر تجزیہ کار سجاد میر نے کہا ہے کہ راتوں رات ریپبلکن پارٹی بنی اور ڈاکٹر خان صاحب اس کے صدر بن گئے،آئی آئی چندریگر اور خواجہ ناظم الدین  کو ان کی وجہ سے جیسے جانا پڑا سب کے سامنے ہے،تازہ مثال بھی کم تشویشناک نہیں ،نوازشریف زوروں پر تھے،عدالت سے جیت کر آگئے تھے،پتا چلا کہ ن لیگ کے سارے لوگ دوسری پارٹی میں چلے گئے ہیں ۔منظور وٹو ان کی خواہش کیخلاف وزیر اعلیٰ پنجاب بنا دیے گئے،پرویز مشرف نے  تو کام بھی یہی کیا ۔لوگ دو تین طریقوں سے بدلتے ہیں ،یہ صرف پیسہ لے کر نہیں بدلتے ،ایک اشارے پر وفاداری بدل لیتے ہیں ۔یہ لوگ گروی ہوتے ہیں،یہ عوام کے نہیں کسی اور احسان مند ہوتے ہیں ،سیاستدان نااہل ہوئے،پارٹیاں بدلتے رہے۔ایسے لوگ بھی پارٹی بدلتے رہے جن کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا تھا ۔

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے بیانات کوکتنا سنجیدہ لینا چاہئیے ؟

سچ تو یہ ہے کہ ہمارا کوئی بھی ادار ہ حقیقی انداز میں کام نہیں کرسکا ۔پارلیمنٹ بھی نہیں ،سیاستدان بھی نہیں ۔ان لوگوں کے ضمیر نہیں مفادات جاگتے ہیں ۔اب جب لوگوں کو نظر آیا کہ اگلے الیکشن میں عمران خان کے ٹکٹ پر نہیں جیت سکیں گے تو انہوں نے پی ٹی آئی کو غیر باد کہنا شروع کردیا ۔قانون میں یہ عمل روکنے کیلئے سب کچھ موجود ہے لیکن عمل نہیں کیا جاتا ،جب تک جماعتیں کمزور ہیں تب تک ایسا ممکن نہیں ۔



Comments

Popular posts from this blog

تحریک عدم اعتماد: میچ آخری اوورز میں داخل

میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں

پاکستان میں’’لوٹا ‘‘کلچر کیسے عام ہوا ؟