سیاسی تھیٹر اور او آئی سی کا اجلاس
عدم اعتماد کا معاملہ گھمبیر ہوتا جارہا ہے،شہبازشریف اور بلاول نے پیر تک تحریک پیش نہ ہونے پر اسمبلی میں دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے،دوسری طرف سپریم کورٹ میں تصادم سے بچنے کیلئے درخواست پر سماعت ہورہی ہے،اپوزیشن کیوں دھمکی لگارہی ہے،او آئی سی اجلاس ہونے دیں جو سیاسی تھیٹر لگانا ہے اس کے بعد لگالیں؟
سب سے اہم چیز یہ ہے کہ بلاول کے بیان کے ردعمل میں وزیر داخلہ نے کیا کہا ہے،وہ کہتے ہیں ان کو سمجھ آجائے گی ۔ایسا کریں سب مل کر او آئی سی کو کہیں اپنا اجلاس کہیں اور کرلیں ۔یہ ملک کا تماشا بنا رہے ہیں،قانون کے تحت چیز آرہی ہے،کوئی ماورا آئین تو نہیں ہے،آئینی طریقے سے کام کریں ۔کوئی ایٹم بم تو نہیں چلا رہا۔چیزوں کو ٹھیک کرنا حکومت کا کام ہے۔یہ سوچ کیا رہے ہیں ۔بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں ،اس وقت کی حکومت نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا جو آج ہورہاہے،اس وقت تحریک دم جب ٹوٹا جب تین آزاد ارکان محترمہ کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے۔یہ تو ایم این ایز کو مسنگ پرسنز کہہ رہے ہیں ۔وزیر داخلہ کروانا کیا چاہتے ہیں ۔حکومت کے اوسان خطا ہوچکے ہیں ،جس وزیر کے منہ میں جو آتا ہے بول دیتا ہے۔
اسلام آباد کی صورتحال کو نہ پیدا ہونے دینا بنیادی ذمہ داری تو حکومت کی تھی ۔یہ قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ وزیر داخلہ ایسی صورتحال کو ہوا دے رہے ہیں ،لوگوں کو ہلہ شیری دے رہے ہیں ۔مجھے نہیں لگتا وہ حکومتی ایجنڈے پر ہیں ،میں نے جب سندھ میں گورنر راج کے بارے میں پوچھا تو شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس طرح کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ۔جب چیزیں بنیاد سے اکھڑتی ہیں تو وہ لڑھکتی رہتی ہیں تب تک انجام تک نہ پہنچے۔جو بیان بلاول نے دیا ان سے ایسے بیان کی امید نہیں تھی ۔معاملات کو معمول پرلانا حکومت کا کام ہے۔اس وقت سیاسی بحران نہیں ہے اور بحران بھی ہیں ۔بیک ڈور رابطے جاری ہیں ۔وزیر اعظم عقل کل نہیں ،اقتدار چند دنوں کی بات ہے۔
مائنس ون تب ممکن ہے جب کوئی اور رول پلے کرے،یہ سیاستدانوں سے امید نہ کریں ،ہماری تاریخ ہے سیاستدان جھگڑے کو بڑھاتے ہیں کم نہیں کرتے،ان کے نزدیک پارٹی کا مفاد ملکی مفاد ہوتا ہے،یہاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ او آئی سی عمران خان کیلئے نہیں پاکستان کیلئے ہورہی ہے۔اس کی عزت پاکستان کو ملے گی ،پاکستان 23مارچ کی پریڈ دنیا کو دکھانا چاہتا ۔عالمی حالات میں نام اہم نہیں ہوتے،ملک کا وزیر اعظم اہم ہوتا ہے وہ کوئی بھی ہو ۔کوئی اور کھلاڑی مداخلت کرے تو ان کو ٹھنڈا کرسکتا ہے۔پارلیمنٹ منتخب ہے لیکن ان کے پاس مسئلے کا حل نہیں ۔حکومت اور پی ڈی ایم کے جلسے منسوخ ہونے چاہئیں ،اس سے لڑائی ہوگی ۔ان کو اپنے فیصلے خود کرنے چاہئیں ۔لڑائیاں کرنے سے پاکستان کے مسئلے حل نہیں ہوں گے۔عوام کے مسائل تب حل ہوں گے جب یہ سلیقے سے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
ریکوزیشن کے بعد 14 دن میں اجلاس بلانا ضروری ہوتا ہے،اگر اس دوران کوئی ممبر اسمبلی انتقال کرگیا ہوتو اجلاس ہوتا ہے،فاتحہ ہوتی ہے اور وہ اجلاس ملتوی ہوجاتا ہے۔21 مارچ کو اجلاس ہوگا ،یہی روایت چلے گی ۔جب تحریک عدم اعتماد پیش کردی جاتی ہے تو سات دن میں ووٹنگ ضروری ہوتی ہے۔اسمبلی اجلاس بلانے کا نوٹی فکیشن جلد جاری کردیا جائے گا ۔اپوزیشن نے دبائو میں لانے کیلئے ان دنوں کا انتخاب کیا ،یہ سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔پاکستانی سیاست کا مسئلہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے۔یہ ایک دوسرے کے ارکان چرائیں گے،یہی تماشہ لگا ہوا ہے۔

Comments
Post a Comment