اب ضد نہیں چلے گی
وزیر اعظم آخری وقت تک لڑیں گے ،استعفے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔اس ہفتے ٹرمپ کا پتہ بھی کھیلیں گے،چودھری نثار کی ملاقات ،بڑی پیش رفت کی نوید ہے، اس خاکسار کے مشوروں پر بھی غور جاری ہے،اس سیاسی جنجال سے نکلنے کیلئے مسئلے کا حل ڈھونڈنا ہوگا ،یہ پاکستان کی معیشت کی بقا کی جنگ ہے۔ضروری ہے کہ صورتحال سے جلدی نمٹا جائے۔وزیر اعظم کو سب سے زیادہ قربانی دینی ہوگی ۔سب سے حساس معاملہ یہ ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے جانشین کے طور پر کسی ایسے شخص کا تعین نہ کریں جس کا وہ سوچ رہے ہیں ۔اپنی خواہش کو ترک کرنا ہوگا ۔خیال یہی ہے کہ وہ اس بات پر زیادہ مصر نہیں ۔دوسری بات وزیر اعلیٰ پنجاب کی تبدیلی ہے جس پر وہ شاید اب سوچنے لگے ہیں ۔تیسری اہم قربانی اپوزیشن سے بات کریں ۔وزیر اعظم اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں لیکن وہ اپوزیشن لیڈر کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔مستقبل میں کیا ہوگا؟
اقتدار اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں ،اگر عمران خان کا اقتدار ختم بھی ہوجائے تو ان کی سیاست ختم نہیں ہوگی ۔وہ ایک طاقتور اپوزیشن لیڈر بن کر ابھریں گے،بدقسمتی سے ماضی میں مقبول حکمران بروقت فیصلے نہیں کرسکے۔جنرل ایوب جن کا مذاق اڑاتے تھے انہی سیاستدانوں نے مل کر ناکوں چنے چبوا دیے،جب مصلحت کی طرف آئے تو حالات ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے،آئین میں ترمیم منظور نہ کروا سکے اور مداخلت کی صورت میں ان کی جگہ کوئی اور آگیا ۔ذوالفقار بھٹو بھی اپوزیشن سے لڑتے رہے،جب وقت ہاتھ سے نکل گیا تو مذاکرات کی طرف آئے لیکن وہ اپنی حکومت اور اپنے آپ کو نہ بچاسکے۔وزیر اعظم عمران خان کو بھی بروقت فیصلہ کرنا چاہئے۔اس وقت ماضی کی مداخلت کی طرح کے امکانات کم نظر آتے ہیں لیکن جب جنرل ضیا نے اقتدار سنبھالا تو سقوط ڈھاکہ ہوچکا تھا ۔اس وقت یہی سمجھا جارہا تھا کہ فوج اب اقتدار میں نہیں آئے گی ،اس وقت سیاستدانوں نے آپسی لڑائی اس حد تک بڑھا دی کہ مارشل لا لگانا پڑا ۔یہ ایک نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے۔اس وقت 58 ٹو بی نہیں ہے،وزیر اعظم نواز شریف کیخلاف فیصلہ آیا تو ان کو گھر جانا پڑا۔
کون کون ن لیگ کو چھوڑ رہا ہے؟ ویڈیو دیکھیں
اب تو تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی ہے،اگر منظور ہوتی ہے تو کوئی اور بات ہوگی ۔وزیر اعظم سرپرائز دیتے ہیں تو پھر کوئی اور صورتحال پیدا ہوجائے گی ۔اس میں کوئی شبہ نہیں چوھری نثار ایک باوقار اور باکردار سیاستدان ہیں ۔ان کا بڑا احترام ہے،اس وقت ن لیگ میں زیادہ موثر نظر نہیں آتے،سوال یہ بھی ہے کہ کیا پی ٹی آئی کے تمام دھڑے ان کو قبول کرلیں گے؟ اگر اپوزیشن کی صفو ں میں ٹوٹ پھوٹ ہوگئی تو پھر صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے،یہ ضرور ہے کہ چودھری نثار کے عمران کے ساتھ کھڑے ہونے سے سیاسی دھماکہ ضرور ہوگا ۔
پاکستان میں ایک بڑے بحران کا خدشہ
اگر اپوزیشن کی صفوں میں دراڑ پڑتی ہے تو عمران خان کی حکومت بچ سکتی ہے،اگر سپریم کورٹ سے ایسا کوئی فیصلہ آجائے جس کی وجہ سے منحرفین کو ووٹ دینا مشکل ہوجائے،اس کے علاوہ کوئی تیسری وجہ نظر نہیں آرہی جس کی وجہ سے یہ حکومت بچ جائے،پی ٹی آئی میں کم وبیش 51 ارکان اسمبلی ایسے ہیں جنہوں نے 2018 میں تحریک انصاف کو جوائن کیا۔پانچ ایسے ہیں جو آزاد ارکان تھے اور جیت کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔جو بھی صورت ہو نئے انتخابات دستک دے رہے ہیں ۔انتخابات کے بغیر بات نہیں بنے گی ۔ہماری معیشت زیادہ دیر بے یقینی کی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی ، وزیر اعظم کو جرات کا مظاہرہ کرنا چاہئے،عوام کے پاس جاکر فیصلہ ہوجانا چاہئے،ان کو ہی گرہ کھولنی چاہئے،اگر ضد نہ چھوڑ ی تو مزید گرہیں لگیں گی ۔اپوزیشن بھی نئے انتخابات چاہتی ہے،میرے خیال میں ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ شفاف انتخابات ہوسکتے ہیں ۔دیر کی گئی تو معاملہ کسی اور کے ہاتھ میں چلا جائے گا،وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بھی ہوتی ہے تو عمران خان نئے انتخابات کی طرف چلے جائیں ۔یہی بہتر راستہ ہے،فریقین کو اس معاملے میں ضد نہیں کرنی چاہئے۔

Comments
Post a Comment