جمعیت ایسی تو نہ تھی ؟

پیر  کے روز سندھ اسمبلی میں ایک تماشا لگا ،اس تماشے کی دوسری قسط  منگل کے روز بھی سوشل میڈیا ،میڈیا کی زینت بنی ۔دنیا نے دیکھا کہ پی ٹی آئی ارکان پہلے  دن آہ و بکا کرتے ہوئے  ’’جمہوریت‘‘کا جنازہ لے آئے،دوسرے دن اسی جنازے  کے قل پڑھنے کے بجائے ڈھول کی تھاپ پر جشن مناتے دکھائی دیے،اسمبلی سٹاف نے پی ٹی آئی کے نکالے گئے ارکان اسمبلی کی نیت کو بھانپ لیا اور گیٹ بند کردیے
 

 
سندھ حکومت اور پی ٹی آئی کی دھینگا مشتی کے دوران  اپوزیشن رکن سید عبد الرشید کی  تصاویر اور ویڈیوز بھی سامنے آئیں ،ان میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ اسمبلی کی دیوار پھلانگ کر  احاطے میں داخل ہورہے ہیں ،وہ اس کوشش میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں ،انہوں نے  مہم کو اپنی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا  کہ سندھ اسمبلی ایک بار پھر اقلیت کے پروٹیکشن بل کے نام پر اسلام قبول کرنے پر پابندی کا بل پیش کرنے کے لئے قرارداد لائی گئی اسمبلی میں داخلے پر پابندی گیٹ پھلانگ کر پہنچ گیا ،اسپیکر سندھ اسمبلی نے تمام داخلی راستے بند کر کے ارکان پر اندر آنے پر پابندی عائد کردی تھی،میں نے پہنچ کر قرارداد پیش نہیں کرنے دی،یہ جاننا ضروری ہے کہ سید عبدالرشید کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں ہے،وہ جماعت اسلامی کے واحد رکن سندھ اسمبلی ہیں ،ہمارے زمانہ طالب علمی  میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلی ٰ ہیں ،وہ ہمیشہ سے جارحانہ رہے،ایم کیو ایم ان سے خوف کھاتی ہے،موجودہ وزیر اعظم کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی جب تشدد کا واقعہ پیش آیا تو وہ جمعیت کے سیکرٹری جنرل تھے
 
یہ سابق جمعیت کا ایک روپ تھا جسے ہم مثبت کہہ سکتے ہیں ،سوشل میڈیا پر موجودہ جمعیت کا بھی ایک روپ دیکھا گیا ،میرے پاس ایک ویڈیو پہنچی جس میں کچھ نوجوانوں نے ایک سٹوڈنٹ کو اپنے  گھٹنوں کے نیچے دبا رکھا ہے،اس پر تشدد کیا جارہا ہے،اس تشدد کے دوران ’’زندہ ہے جمعیت زندہ ہے‘‘ کے نعروں کی گونج سنائی دی جاسکتی ہے،بعد میں ٹی وی پر چلنے والی خبروں سے پتہ چلا کہ جمعیت سائنس کالج لاہور  کے کارکنوں نے طلبا پر تشدد کیا ،تشدد کے بعد  انہیں ہاسٹل کی چھت سے پھینک دیا ،ان میں سے ایک مثانہ پھٹ گیا ۔بقیہ تین شدید زخمی بھی ہوئے۔اس سے ایک روز قبل پنجاب یونیورسٹی کے گیٹ سے  شراب کی بوتلیں پکڑی گئیں،پولیس کے مطابق یہ شراب جمعیت کے کسی ناظم نے منگوائی تھی،کیا جمعیت پہلے بھی ایسی ہی تھی ؟ اس کا پتا لگانے کیلئے ہمیں تاریخ کھنگالنا پڑے گی
 
میرے خیال میں  جمعیت ایسی نہیں تھی ، جولائی کا مہینہ تھا ، ملتان کی گرمی  کا تو آپ کو اندازہ ہو گا کیسی ہوتی ہے،اس گرمی میں ایمرسن کالج ملتان  میں  میٹرک کے نتائج کے بعد نئے آنے والے طلبہ کی رہنمائی کیلئے کیمپ لگایا تھا ، یہ تین روزہ کیمپ تھا  جسے جمعیت نے لگایا تھا ،جمعیت شاید ایسا تمام تعلیمی اداروں میں کرتی ہے،اس کا ایک مقصد طلبا کی رہنمائی ہوتا ہے دوسرا جمعیت کا تعارف ۔اس کیمپ کے پہلے روز سینکڑوں طلبا کی رہنمائی  کی گئی   ان کو مفت سٹیشنری، داخلہ فارمز کی سہولت  بھی ملی ، دوسرے دن بھی  جمعیت والے  اسی کام میں مصروف تھے کہ اچانک 15 سے20 نوجوان جن کے ہاتھوں میں ڈنڈے اور کچھ کے ہاتھوں میں پستول بھی تھے حملہ آور ہو گئے۔ فائرنگ کے 2 کارکن ڈٹے رہے تو انہوں نے  ان کی خوب دھلائی کی۔ سر میں کرسیاں لگنے سے  ایک  زخمی ہوگیا، پتا چلا کہ یہ حملہ پیپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن کی طرف سے کیا گیا تھا جس کی سربراہی سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کے ہاتھ میں تھی اور تحریک انصاف کے موجودہ ایم این اے عامر ڈوگر ان کو اسلحہ فراہم کرتے تھے
 
جمعیت والے فطرت میں ڈھیٹ تو ہیں ہی مار کھانے کے بعد بھی نہیں سیکھتے۔ مار کے بعد تو پکے جماعتیے بن جاتے ہیں، ایسا کچھ  ان کے  ساتھ بھی ہوا  مار کھانے کے بعد بھی کالج نہیں چھوڑا، سردیوں کے دن تھے اور فارغ وقت کے دوران گرائو نڈ میں کرکٹ کھیل رہے تھے کہ جیالے بھائیوں نے موٹر بائیکس پر ایسے دبنگ انٹری ماری جیسے بالی ووڈ فلموں میں ولن مارتا ہے، انہوں نے آئو دیکھا نا تائو ، ہم پر مکوں گھونسوں کی بارش کردی، ڈنڈے اور ٹھڈے خوب لگے، اس واقعہ میں بھی جمعیت والے مظلوم تھے،ان دونوں واقعات کا میں عینی شاہد ہوں
 
ان واقعات کا بتانا مقصود یہ تھا کہ جمعیت نے اچھے کام کیے طلبہ کو مثبت سرگرمیاں دیں جو مخالفین کو برداشت نہیں تھیں وہ اپنا قبضہ کالج پر چاہتے تھے، پی ایس ایف کے گروہ میں سب غیر طلبہ عناصر تھے جن کو کالج کے اندر سے ہی سہولت کار پروفیسر ملے ہوئے تھے، اس گروہ کا کام صبح گیٹ پر کھڑے ہو کر بیچارے طلبا کی جیبوں کو صاف کرنا، کینٹین اور سائیکل سٹینڈ سے بھتہ وصولی ہوتا تھا، ہماری وجہ سے ان کے کاروبار کو نقصان ہوتا تھا کوئی اپنے کاروبار میں نقصان تھوڑا چاہے گا۔ جمعیت کی سب سے بڑی برائی بھی یہی تھی،جمعیت نے پاکستان کو بڑے بڑے لیڈرز دیے ہیں ،موجودہ اسمبلیوں میں اگر کوئی توانا آواز ہے تو وہ جمعیت کے سابقین کی ہے،شیخ رشید کا دعویٰ ہے کہ آرمی چیف بھی جمعیت کے ناظم رہے ہیں  
تشدد کسی بھی صورت میں ہو وہ غلط ہے،چاہے وہ کالجز ،یونیورسٹیوں میں ہونیوالا جسمانی تشدد ہویا وہ مدارس میں ہونیوالا جنسی تشدد ۔یہ ایک قابل نفرت عمل ہے،اس کا تدارک ہر صورت میں ہونا چاہئے،اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں کے موجودہ عمل کا دفاع نہیں کیا جاسکتا ،یہ بھی دہشتگردی کی ایک صورت ہے،یہ معصوم ذہنوں کو دبا کر پوری لائف کیلئے نفسیاتی 
 مریض بنانے کے مترادف ہے
 


Comments

Popular posts from this blog

تحریک عدم اعتماد: میچ آخری اوورز میں داخل

میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں

پاکستان میں’’لوٹا ‘‘کلچر کیسے عام ہوا ؟