تحریک عدم اعتماد کے دنگل کا فیصلہ کن اکھاڑا

 وفاقی دارالحکومت اسلام  آباد آج سے تحریک عدم اعتماد  کے دنگل کا فیصلہ کن اکھاڑا بننے جارہا ہے،پی ٹی آئی کے آر یا پار کے فیصلہ کن مرحلے کا آغاز قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہوگا۔فرسٹ اپریل تک معاملہ منطقی انجام   تک پہنچ جائے گا ۔پی ٹی آئی کے 13 منحرف ارکان تاحال ٹس سے مس نہیں۔اتحادی کسی بھی وقت پانسہ پلٹ سکتے ہیں ۔عدم اعتماد کی آئینی جنگ سیاسی تصادم میں بدلنے کا خدشہ  ہے۔کیا ہوسکتا ہے؟ کیا ہونے جارہا ہے؟

فیصلہ کن صف بندی 48 گھنٹوں میں سامنے آجائے گی،اس میں اہم کردار وزیر اعظم  کے اتحادیوں کا ہوگا ،انہوں نے اپنے تحفظات کا اظہار توکردیا ہے لیکن ابھی تک اعلان کرنے سے گریزاں ہیں،وہ ڈرامائی  صورتحال پیدا کرسکتے ہیں ،ایم کیو ایم ایسغ فیصلے کرتی رہی ہے،اصل مشکل میں اس وقت حکومت ہے،حکومتی اتحادیوں کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی طرف سے دعوے کیے جارہے ہیں ،منحرف اراکین تو جارحانہ انداز میں کھیل رہے ہیں وہ دفاعی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔اگر عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے یا ناکام ۔نقصان حکومت کا ہی ہونا ہے،حالات  عام انتخابات کی جانب جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔یہ ایک نفسیاتی جنگ ہے،طاقت  کا مظاہرہ کرنا بھی نفسیاتی دبائو کیلئے ہے۔


میرے خیال میں اتحادیوں کا کردار اہم ہے،توقع  یہی ہے کہ وہ عدم اعتماد کے حق میں ہی جائیں گے،ق لیگ کے پاس 10 یا 12 ممبران پنجاب اسمبلی ہیں ،ن لیگ اکثریتی پارٹی ہے،پرویز الٰہی ماضی میں ن لیگ  کا حصہ رہے ہیں ۔وہ سیاسی وضح داری کی وجہ معاملات ہینڈل کرسکتے ہیں ۔اگر عمران خان کا مضبوط وزیر اعلیٰ پنجاب ہوتا تو ان کیخلاف تحریک عدم اعتماد نہ آتی ۔چودھری نثار اپنی وضح کے نرالے شخص ہیں ،2018 میں بھی ان کو وزیر اعلیٰ کی آفر ہوئی تھی ،تب بھی انہوں نے لوٹا بننے سے انکار کردیا تھا ،ابھی چودھری نثار سے عمران خان کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی ۔چودھری نثار کے بیٹے آئندہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے۔


سابق صدر سپریم کورٹ بار جسٹس (ر)رشید اے رضوی  نے کہا ہے کہ آئین ارکان اسمبلی کو ایک کشتی سے دوسری کشتی میں کودنے سے روکتا ہے،پی ٹی آئی نے منحرفین کو شوکاز نوٹس جاری کیے ہیں ،وہ چاہتے ہیں سپیکر ان کو ووٹ کرنے سے روکے۔آئین میں ایسی کوئی پروژن نہیں کہ  آپ کسی کو ووٹ دینے سے نہیں روک سکتے،اس حق سے محروم نہیں کرسکتے ،اگر کوئی سزا ہے تو وہ ایکشن کے بعد ہے پہلے نہیں ۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ  سپیکر کو کوئی اختیار نہیں کہ ووٹ روکے،اگر ووٹ پڑ جائے گا تو منحرف رکن کو سن کر فیصلہ کرنا پڑے گا ۔اس معاملے کو پارلیمنٹ نے ہی حل کرنا تھا ،ایسی کوئی چیز نہیں جو ریفرنس میں اٹھائی گئی ہے۔منحرف اراکین کو شوکاز نوٹس دینے کا مطلب ہے کہ حکومت اپنی اکثریت کھو چکی ہے،اخلاقی طور پر  ان کو اپنی حکومت  تحلیل کرکے دوبارہ انتخاب میں جانا چاہئے۔آئین میں کوئی سزا تجویز نہیں تو کسی پر سزا تھوپی نہیں جاسکتی ۔پارلیمنٹ سپریم کورٹ کی تشریح سے مطمئن نہ ہوئی تو وہ مزید ترمیم کرسکتا ہے،سپریم کورٹ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ترمیم کرے۔

No_Confidence motion against Imran khan will fail?

سابق وفاقی وزیر قانون  بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ پارٹی رکن اسمبلی باقی تمام معاملات میں تو انفرادی ووٹ نہیں دے سکتا ،تحریک  عدم اعتماد میں پارٹی لائن کیخلاف ووٹ نہیں دے سکتا ،آئین میں ترمیم  اس لئے کی گئی تھی کہ ہارس ٹریڈنگ  کو روکا جاسکے۔یہ پارٹی کا حق ہے کہ یہ کس طرف  ووٹ ڈالنا ہے،پارٹی کیخلاف ووٹ کو رکنا چاہئے اور اس کی سزا بھی ملنا ضروری ہے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کو سپریم کورٹ معاملہ واپس پارلیمنٹ میں بھیج دیا جائے،عدالت کوئی بھی فیصلہ دے سکتی ہے۔63 اے میں میری بھی یہی رائے ہے کہ جب تک ووٹ نہیں پڑ جاتا تب تک کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی ۔ووٹ ڈالنے سے کوئی روک نہیں سکتا ۔ووٹ ڈالنے کے بعد کیا ہوگا سپریم کورٹ اس کی تشریح کرے گی ۔جو تشریح سپریم کورٹ کرے گی وہی ہوگا ،سپریم کورٹ ترمیم نہیں کرسکتی ۔

Comments

Popular posts from this blog

تحریک عدم اعتماد: میچ آخری اوورز میں داخل

میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں

پاکستان میں’’لوٹا ‘‘کلچر کیسے عام ہوا ؟