رضیہ خود تو بڑی شریف ہے لیکن ۔۔۔

ہمارے گائوں میں ایک سودی بیگم رہتی ہیں ،جب بھی کسی کو  پیسوں کی  ضرورت  ہو،کسی کی بیٹی بیاہنا ہو یا کسی کے بچوں کی پڑھائی کا مسئلہ ہو، خوشی اور غمی میں یہ سبھی کے کام آتی ہیں،سودی بیگم یعنی رضیہ سبھی کی ضرورت پوری کرتی ہے،کسی کسان کے پاس فصل کے بیج کے پیسے نہ ہوں تو وہ اسے بیج لے کر دیتی ہے،فصل پکنے والی ہو تو وہ کھادوں،کیڑے مار سپرے وغیرہ کا بھی بندو بست کرکے دیتی ہے،سودی بیگم نیک بھی بہت ہے،پنچگانہ نماز کی پابند ،تہجد گزار ،صدقہ و خیرات کرنے والی ۔سودی بیگم کی ایک اور  اچھی بات ہے کہ وہ تسبیح بھی ہر وقت اپنے پاس رکھتی ہے،محفل میں بیٹھی ہو تو تب بھی تسبیح کے دانے گررہے ہوتے ہیں ،رضیہ کی نیک نامی کے پورے علاقے میں چرچے ہیں ۔


 

رضیہ کا فلاحی کاموں کیلئے ایک پورا نیٹ ورک ہے، پوری ٹیم ہے جو یہ کام کرتی ہے، رضیہ کو اکثر پتا بھی نہیں ہوتا کہ کئی کام ہوجاتے ہیں ،علاقے میں نیک خاتون ہونے کے باوجود لوگ خوشحال نہیں ،لوگوں کے خوشحال ہونے کے بجائے رضیہ بیگم کے اثاثے بڑھتے جارہے ہیں ،پہلے زمین لی ،پھر دکانیں بنا ئیں ،گاڑی بھی لی اب تو ایک پٹرول پمپ بھی لگالیا ۔ رضیہ بظاہر کام بھی کوئی نہیں کرتی پھر بھی شاہانہ انداز ۔اس میں رضیہ کا کوئی قصور نہیں کیونکہ وہ تو بہت نیک ہے،ایماندار ہے،جس کی گواہی تو مسجد کا امام بھی دیتا ہے،قصور لوگوں کا ہے جو مراد لے کر اس کے پاس جاتے ہیں ،وہ تو ان کی مراد پوری کرتی ہے۔ہماری رضیہ تو بہت شریف ہے؟
 
ایسی ہی کچھ صورتحال ہمارے حکمران کی ہے،جن کی نیک نامی پر کسی کو کوئی شک نہیں ،گوادر سے امریکا تک ان کی ایمانداری کے چرچے ہیں،ننگے پائوں روضہ رسول ﷺ پر حاضری دیتے ہیں ،ان کیلئے بیت اللہ کے دروازے خصوصی طور پر کھولے جاتے ہیں،ان کے  صادق اور امین ہونے پر تو عدالت نے مہر تصدیق ثبت کررکھی ہے،امت مسلمہ کے سفیر ہیں تو مظلوم کشمیریوں کے وکیل ۔اس سے زیادہ  نیک نامی کی اور کوئی گواہی نہیں ہوسکتی ۔
 
دیکھیے ذرا،مخالفین کی تمام تر کوششوں کے باوجود ، راستے میں روڑے اٹکانے کے باوجود ان کی حکومت اپنی آدھی مدت پوری کرچکی،اگلی آدھی مدت بھی پوری کرلے گی ۔اب تو کہتے ہیں کہ نیوٹرل امپائروں کے ساتھ پھر آئوں گا ۔اس سے ظاہر ہے کہ وہ دور اندیش بھی ہیں ،انہوں نے اچھی شہرت رکھنے والے ماہرین ایک ایک کرکے فارغ کردیے یا وہ خود فارغ ہوگئے۔تانیہ ایدروس ،ظفر مرزا ،ہارون شریف ،ندیم بابر آئے گئے،ذوالقرنین خان ،حفیظ شیخ کوئی نہیں چلا ۔جہانگیر ترین ،عامر کیانی ،اعظم سواتی ،ذلفی بخاری  سبھی چلے گئے،سبھی پر الزام آئے لیکن صادق اور امین پر ایک آنچ نہیں آئی ،ان کا بال بیکا تک نہیں ہوا۔
 
  
اب یہ راولپنڈی رنگ روڈ جیسے بھاری بھرکم کرپشن سکینڈل کا شوشہ کس نے چھوڑ دیا ،یہ ایک منصوبہ نہیں اربوں روپے کا کھیل ،درجنوں بااثر شخصیات ملوث ہیں ،سابق کمشنر راولپنڈی اسکینڈل کے مبینہ معمار ۔موصوف کا نام کئی اور سیکنڈلز میں نام آتا رہا۔شفاف نیب تحقیقات حقائق کھود نکالے گی ۔تحریک انصاف کی حکومت اب تک دعویٰ کرتی رہی ان کا کوئی بھی کرپشن سکینڈل سامنے نہیں آیا ،رنگ روڈ سکینڈل نے اس دعوے کو غلط ثابت کردیا۔اس منصوبے میں تبدیلیاں کس کے کہنے پر کی گئیں ؟ جن کو باخبر ہونا چاہئے تھے سبھی بے خبر رہے۔کون ذمہ دار ہے؟ منصوبے کی کس نے  منظوری دی؟
  
راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے دور میں جو منصوبہ بنا وہ سرکاری رولز کے مطابق منظور شدہ منصوبہ تھا ،اس میں تمام ضروریات پوری کی گئیں،موجودہ حکومت  میں  اس میں چپکے سے تبدیلیاں کردی گئیں ۔اس رپورٹ میں سب کا ذکر ہے لیکن ایک شخص کا نہیں وہ جو ڈائریکٹ اس کا ذمہ دار ہے،وہ ہیں ’’وسیم اکرم پلس‘‘ ،ان کا نام ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ ان کی ڈوری تو کہیں اور سے ہلتی ہے ۔اس منصوبے کی اپروول کہیں سے نہیں ہوا لیکن مارکیٹ میں تاثر دیا جاتا رہا کہ یہ منظور شدہ ہے،خبر ہے کہ یہاں کے متاثر ین غلام سرور خان اور صداقت عباسی کے پاس گئے،دونوں نے ان کی بات پر توجہ نہیں دی ۔گلزار شاہ کی رپورٹ میں زلفی بخاری کا نام نہیں ،شہباز شریف کے سابق  سیکرٹری توقیر شاہ کا  نام ہے،توقیر شاہ ذلفی بخاری کے رشتہ دار ہیں ۔اس منصوبے میں ذلفی بخاری کی خاصی دلچسپی تھی وہ ہی اسے دیکھ رہے تھے،اب وہ چارٹرڈ طیارے سے دوبئی جا چکے ہیں۔
 
خبریں ہیں کہ وزیر اعظم کو ایک خفیہ پیغام کے ذریعے رنگ روڈ منصوبے میں گڑ بڑ کی اطلاع دی گئی ،ان کے کزن جاوید برکی نے پوری تفصیل بتائی ۔اس میں 15 منتخب ارکان  سمیت 50 افراد کے نام آرہے ہیں،ان پچاس لوگوں نے پیسے کمائے ،اس منصوبے کی حتمی منظوری وزیر اعظم نے خود دی ہے،موجودہ حکومت کا یہ سب سے بڑا سکینڈل ہے،ذرائع بتاتے ہیں زلفی بخاری سے استعفیٰ لیا گیا ہے،انہوں نے استعفیٰ دیا نہیں ۔اس سکینڈل سے تمام شعبوں کے لوگوں نے فائدہ اٹھایا ،ان میں سابق آرمی افسر ،بیورو کریٹ ،سیاستدان بھی شامل ہیں،اس سکینڈل کی رپورٹس تیار ہوچکی ہیں،اس پراجیکٹ میں کچھ اور پردہ نشینوں کے نام بھی آئیں گے۔
 
دوسر ا کارنامہ جو سامنے آیا ہے اس کا بھی ابھی تک کسی کو علم نہیں ۔مئی کے شروع میں پنجاب حکومت نے ایک ایسا کرتب دکھایا ہے کہ جس شوگر مافیا کو ختم کر نے کا دن رات راگ الاپا جاتا ہے اسے خاموشی سے فائدہ پہنچا دیا گیا ۔پنجاب اسمبلی میں ایک ایسا قانون پاس کردیا ہے کہ  جس کا کسانوں کو فائدہ دینے والے وفاقی  حکومت کے آرڈیننس سے کوئی تعلق ہی نہیں ۔1950  میں بھی ایک  قانون  تھا  جس کے مطابق شوگر ملز  15  دن میں کسانوں کو گنے کے  پیسے دینے کی پابند تھیں ،اب اس سے کسان کو 6 ماہ رلنا پڑے گا ۔ 80شوگر ملیں ہیں جو کھانے میں مصروف ہیں ،12 ارب روپے کے لگ بھگ شوگر ملز ملکان  نے کسانوں کے ادا کرنے ہیں ۔
 
جس کے دامن پر کوئی داغ نہیں،انہی کی ناک کے نیچے سب کچھ ہوتا رہا ،کرپشن سکینڈلز ان ہی کی حکومت میں آرہے ہیں،ادویات کے سکینڈل میں ملوث ،انہی کا وزیر تھا ،جو کچھ پٹرولیم میں ہوا ،ساری قوم نے دیکھا ،جب سب  لوٹ کر چلے گئے تب نکال دیا  ۔مافیاز ان کے نیچے پنپ رہے ہیں ۔کورونا وائرس کے امدادی پیکج کا آئی ایم ایف کے کہنے پر آڈٹ کروایا گیا لیکن آڈیٹر جنرل کو رپورٹ شائع کر نے سے روک دیا گیا ہے،وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ اس میں بے انتہا بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے،جب تک  ’’رضیہ ‘‘ کی نیک نامی کا یقین نہیں ہوجاتا تب تک یہ رپورٹ شائع نہیں کی جائے گی کیونکہ رضیہ تو بڑی شریف ہے لیکن۔۔۔خیر اب رضیہ سے پوچھنے کا وقت بھی آگیا ہے کہ بغیر کام کاج کے شاہانہ زندگی کا راز کیا ہے؟
 


Comments

Popular posts from this blog

تحریک عدم اعتماد: میچ آخری اوورز میں داخل

میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں

پاکستان میں’’لوٹا ‘‘کلچر کیسے عام ہوا ؟