وزیر اعظم کیا سرپرائز دیں گے؟

 وزیر اعظم عمران خان اتوار کو کیا سرپرائز دیں گے؟ کیا ملکی نظام حکومتی تبدیلی کے ساتھ چل پائے گا؟ کیا عمران خان حکومت سے باہر آنے پر پسپائی اختیار کریں گے؟ ہم ایک مبصر ہیں ،ہم کسی کا پراپیگنڈا نہیں کرنا چاہتے، ابھی معرکے باقی ہیں ۔وزیر اعظم ہائوس سے ڈپریس ہوکر نکلا ہوں ۔عمران خان کی خامیاں ہیں تو کئی خوبیاں بھی ہیں ،عمران خان کو ایک پاکستانیوں کی بڑی سپورٹ حاصل ہے،سابق سرکاری عہدیدار ان کو پسند کرتے ہیں،انہوں نے 2 جماعتوں کی مناپلی کو توڑ ا جس کے بارے میں خیال تھا کہ وہ ایک مضبوط ہے۔اجارہ داری توڑ کر خجل خوار کیا ۔حکومتی باب بند ہونے جارہا ہے،جو نظام شروع کیا گیا تھا اس کا سورج ڈھل رہے۔وزیر اعظم استعفیٰ نہیں دے رہے وہ بھاگنے والا شخص نہیں ہے،آخری دم تک لڑیں گے،نمبر گیم ان کے خلاف جاچکا ہے،اس کا حصار توڑ نہیں پائیں گے۔ہوسکتا ہے کوئی ہنگامہ ہوجائے۔


  وزیر اعظم نے خط کو ایشو بنایا ۔پاکستان اور امریکا کے تعلقات اونچ نیچ رہی ہے،سلالہ واقعہ پر بھی پاکستان نے امریکا سے احتجاج کیا تھا،6 ماہ تعلقات معطل رہے،امریکا کبھی بھی ہمارا دوست نہیں رہا ،جلسے والے دن وزیر اعظم کی صورتحال مختلف تھی ،جلسے کے بعد بھی کسی پر اثر نہیں پڑا ،اتحادی  بھی ان کو چھوڑ گئے۔اپنے لوگ بھی چھوڑتے چلے گئے،امریکی خط والے معاملے کو زیادہ اچھالا گیا ،اللہ کو تکبر پسند نہیں ۔یہی تکبر ان کو ناکامی کا باعث بنا ۔پارلیمانی نظام میں ہر بندہ منتخب ہوکر آتا ہے۔عمران خان ایک ناکام وزیر اعظم ثابت ہوئے ہیں لیکن ان کی سیاست ابھی ختم نہیں ہوئی ۔وزیر اعظم کو چاہئے تھا عثمان بزدار  کو وزیر اعلیٰ رکھتے۔عمران خان کی مقبولیت کم نہیں ہوئی ۔کے پی میں ان کو ہمدردی کا ووٹ ملا ۔خان صاحب کو کھڑا رہنا چاہئے،بطور اپوزیشن لیڈر اپنا کردار ادا کریں ۔

مزے مزے کی ویڈیوز دیکھیں

بظاہر تو حالات پی ٹی آئی کے حق میں نہیں  ہیں لیکن پاکستان کی سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ایک بات تو طے ہے کہ لیٹر گیٹ یا میمو میں جو چیز تھی اس کو پاکستانی ریاست نے سنجیدہ لیا ہے،یہ ایک اہم معاملہ ہے،اس کو حل کرنے کیلئے ڈپلو میٹک راستہ ڈھونڈا ہے،جو اہم ہے،سب کو پتہ ہے یہ کام کیسے کرنا ہے،تحریک عدم اعتماد کا  معاملہ آئینی ہے،پاکستانی سیاست اسی ڈگر کی طرف لوٹ رہی ہے،جس پر ہمیشہ چلتی رہی ہے،سیاست کا تعلق معاشرے سے ہوتا ہے،سماجی قوتوں سے ہے۔جب تک  سماجی ،معاشی  ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوتا حالات ایسے چلتے رہیں گے۔اگلی حکومت  کو یہی مسائل درپیش ہوں گے جو عمران خان حکومت کو تھے۔پاکستانی سیاست کے تین ہم جزو ہیں جو شاید عمران خان کو سمجھ نہیں آئے،پاکستانی سیاست میں اصول بنیادی حیثیت نہیں رکھتے ،بلکہ فوری مفادات اہمیت رکھتے ہیں ۔سیاست میں بزنس کلچر ہے،دوسرا یہ ہے کہ جو گروہی مفادات ہیں وہی ملکی مفاد ہے،تیسری  چیز قیادت کی  انا ہے۔یہ تینوں چیزیں جب تک تبدیل نہیں ہوں گی معاملات ایسے ہی چلتے رہیں گے۔


پاکستان کی سیاست ہرلمحہ کوئی نہ کوئی چیز چل رہی ہوتی ہے،سب کے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے ہوتے ہیں ۔اس وقت کوئی فیئر سیاست نہیں ہورہی ہے،اس کے پیچھے بہت سارے محرکات ہیں ۔یہ کوئی خالصتاً جمہوری  یا دستوری طریقہ نہیں ہے۔اپوزیشن نے 172  ارکان پورے کردیے ہیں،اب ووٹنگ پر 172 ارکان کی حاضری پوری کرنی ہے،حکومت قانونی آپشنز استعمال کرسکتے ہیں ۔چند گھنٹوں میں عجیب و  غریب حرکات و سکنات محسوس ہوں گی ۔

Comments

Popular posts from this blog

تحریک عدم اعتماد: میچ آخری اوورز میں داخل

میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں

پاکستان میں’’لوٹا ‘‘کلچر کیسے عام ہوا ؟