عمران کے ساتھ جو ہو رہا ہے کیا یہ وہی بھٹو والا سکرپٹ ہے؟

 

عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد، پاکستان میں حزبِ اختلاف کی ’مشترکہ‘ کوششوں کی ایک ایسی داستان ہے جو کئی اُتار چڑھاؤ دیکھ کر اب اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والی ہے۔ مگر یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ملک میں حزبِ اختلاف کی کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں مل کر کسی منتخب حکومت کو گھر بھیجنے کی کوشش کر رہی ہوں۔


اس سے قبل بھی ملک کی سیاسی تاریخ میں منتخب وزرائے اعظم کو ’نکالنے‘ کی مشترکہ کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ اگرچہ اس بار 'نیوٹرل' ہونے کے بیانیے کو خاصی اہمیت حاصل ہے مگر پاکستان کے ’مخصوص حالات‘ میں اکثر ان کوششوں کو کم و بیش پسِ پردہ طاقتوں کی غیبی امداد ہر بار ہی میسر رہی ہے۔

اور جیسے آج عمران خان 'خط' کا حوالہ دے کر اپنی حکومت کے خلاف بیرونی سازش کا نشان ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں، اسی طرح کے دعوے سیاسی تاریخ میں اس سے پہلے بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

وزیرِاعظم عمران خان کُھل کر یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے موجودہ شریک چیئرمین آصف زرداری اُن کی بندوق کے نشانے پر ہیں اور وہی اُن کا پہلا نشانہ ہوں گے۔ مگر یہ الگ بات ہے کہ آج عمران خان کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے میں جو پاکستان پیپلز پارٹی خاص طور پر پیش پیش ہے، خود اُس کے اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت اور اُن کے اقتدار کے خاتمے کے لیے بھی ’مشترکہ‘ حزب اختلاف نے ہی بھرپور مہم چلائی تھی۔

ذرا دیر کو ماضی کے جھروکوں سے جھانک کر یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کی حکومت کے خاتمے میں امریکہ اور اسٹیبلیشمنٹ پر الزامات کے علاوہ کیا کچھ ایک جیسا ہے اور کیا کچھ الگ ہے۔

پورا مضمون پڑھنے کیلئے لنک پر کلک کریں۔۔بشکریہ بی بی سی  

Comments

Popular posts from this blog

تحریک عدم اعتماد: میچ آخری اوورز میں داخل

میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں

پاکستان میں’’لوٹا ‘‘کلچر کیسے عام ہوا ؟