صدارتی نظام کا نیا شوشہ
پاکستان نت نئے ’’شوشوں‘‘ اور افواہوں کی فیکٹری بن چکا ہے،سوشل میڈیا پر روزانہ کوئی نہ کوئی ایسی بات ہوتی جس پر سوشل میںمیڈیا کے ’’دانشور ‘‘ ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوتے ہیں ،گزشتہ کچھ روز سے ٹوئیٹر پر ایک ٹرینڈ چل رہا ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام ناکام ہوچکا ہے اب صدارتی نظام لایا جا ئے ،یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ’’پاکستان کے مسائل کا واحد حل صدارتی نظام ‘‘ کچھ لوگ تو صدارتی نظام کو اسلامی نظام سے نتھی کرتے دکھائی بھی دیتے ہیں ۔سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ ایک قومی ٹی وی چینل پر اس کے اشتہارات بھی دھڑلے سے نشر ہورہے ہیں۔
اس مہم کے ناقدین کہتے ہیں کہ ہائبرڈ سیاسی نظام ناکام ہوچکا ۔’’باجوہ ڈاکٹرائن ‘‘ کسی کام نہیں آیا تو اس لئے یہ شوشہ چھوڑا گیا ہے،کیا یہ ایک شوشہ ہے؟ اس کے پیچھے کیا وجہ ہے؟ امیرجنسی کی بھی باتیں ہورہی ہیں ،ویسی ہی امیرجنسی جو ملٹری ڈکٹیٹر لگاتے آئے ہیں ۔ملک میں سیاسی تبدیلی ،ملک کے حالات میں تبدیلی کا باعث بن سکے گی ؟ کیا یہ اسمبلی صدارتی نظام لانے قابل ہے؟
پاکستان کی پیدائش پر جہاں خوشیاں منائی گئیں تو وہیں لاکھوں قربانیاں بھی دی گئیں، کئی سہاگ اجڑے تو لاکھوں یتیم ہوئے۔ کئی بے گھر ہوئے، دربدر ہوئے۔ بچپن سے لیکر آج تک آئین کی زنجیروں میں جکڑنے کی کئی بار کوشش کی گئی، پہلے انگریزوں کا قانون لاگو کیا گیا۔ پھر 1949ء میں قرارداد مقاصد کے نام پر’’مسلمان‘‘بنانے کی کوشش کی گئی، یہ بات جب سیکولر طبقے کو ہضم نہ ہوئی تو وہ اسے لادین ثابت کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ 1952ء اور 1956ء میں ایک بار پھر زنجیریں پہنائیں گئیں جو دو سال بعد ہی ٹوٹ گئیں۔
1962ء اور، 1973ء میں بھی آئین ،آئین کا کھیل کھیلا گیا، جن میں اب تک کئی ترامیم کردی گئیں لیکن آج تک یہ آئین اپنی روح کے حساب سے کبھی نافذ نہ ہو سکا۔ پاکستان پر طرز حکمرانی کے بھی طرح طرح کے تجربے کیے گئے۔ کبھی جمہوری نظام لایا گیا تو کبھی فوجی چھتری تلے پناہ ڈھونڈی گئی، کبھی اسلامی سوشلزم کا سہارا لیا گیا تو کبھی خود ساختہ شریعت کا، کبھی تو بندوق کے ذریعے اپنا حکم چلانے کی کوشش کی گئی۔
اس وقت پاکستان 72سال کا ہوگیا ہے لیکن آج بھی غریب ہے، آج بھی کمزور ہے، بھلا کیوں؟ کبھی سوچا اس کے ساتھ جنم لینے والے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ 2 سال بعد آزاد ہونیوالا چین جس کا دنیا مذاق اڑاتی تھی۔ جو پاکستان سے کئی درجے کمزور تھا۔ کل تک ہم سے بھیک مانگتا تھا۔ آج دنیا کی معیشت پر راج کرتا ہے۔ دنیا کے سب وسائل اس کے قدموں میں ہیں۔ کل دنیا جسے گونگا سمجھتی تھی آج وہ بولتا ہے دنیا سنتی ہے۔اور ہم سندھ میں مہاجرازم اور قوم پرستی کا زہر اگلتے رہے۔ بلوچستان میں آزادی کے نام پر گلے کاٹتے رہے۔ فاٹا میں مذہب کے نام پر بارود بچھایا گیا، مسجدوں، امام بارگاہوں میں جہاں محبت کے پھول ملتے تھے وہاں نفرت بیچی گئی۔ مذہب کو تجارت بنایا گیا۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ نام تو اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھ لیا لیکن اسلام نام کی کوئی چیز لاگو نہیں کی ، اسلامی اصولوں،اخلاقیات تک نہ اپنائی گئیں،مذہب کو سیاست سے دور رکھنے کی ہرممکن کوشش کی گئی،مذہبی ووٹ ،مذہبی جماعتیں جو ایک حقیقت ہیں ان کو مسجد اور مدرسے تک محدود رکھا گیا،جمہوریت ہمارا سیاسی نظام ہے لیکن یہی نظام کئی بار لپیٹا گیا،آئین معطل کیا گیا،بولنے ،لکھنے پر پابندی لگی،33سال تک ملک کو بے آئین رکھا گیا،جن کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں تھا وہ حکومت کرتے رہے،جو جمہوری حکومتیں آئیں بھی تو ان کو بھی سازش کے تحت چلنے نہیں دیا گیا۔ہر جمہوری حکومت کے ساتھ کھیل کھیلا گیا،ہمارے دشمن بھی کہتے ہیں کہ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان میں بات کس سے کی جائے،مذاکرات کس سے کریں،پتا نہیں کہ اصل حکمران کون ہیں؟
ان تمام الجھنوں،تمام مسائل سے چھٹکارا پانے کا حل ڈھونڈنا پڑے گا ورنہ داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ہمیں نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے،ہمیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے،وگرنہ کھینچا تانی میں ہم کہیں کے بھی نہیں رہیں گے،دوسروں کے گھروں میں گھسنے کے بجائے اپنے گھروں کی فکر کرنا ہوگی،دوسروں پر اپنی ناکامیوں کا ملبہ ڈالنے کے بجائے اپنے فرائض پہچاننا ہونگے۔ہر طبقے کو اس کے حق کے تحط عزت دینے کی ضرورت ہے،مذہبی ووٹ ایک حقیقت ہے اسے نماز اور واعظ تک محدود کرکے حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں،ان کے ووٹ کسی اور کی جھولی میں ڈالے جاتے رہے تو یہ لوگ مسجدوں،مدرسوں سے نکل کر سڑکوں پر آتے رہیں گے،دہشتگردی میں ایندھن بنتے رہیں گے۔
فوج کے بغیر ملک ٹوٹ جاتے ہیں ،سرحدیں غیر محفوظ ہوجاتی ہیں،فوجی سرحدوں اور بیرکوں میں ہی اچھے لگتے ہیں لیکن کچھ لوگوں کے اقتدار کا شو ق اور سیاستدانوں کی نالائقیاں ان کو بھی اقتدار میں آنے کا جواز بخشتی ہیں،ان کی بھی سننی ہوگی ،ان کا خیال بھی ضروری ہے۔جوڈیشری ریاست کا مضبوط ستون ہے اس کے بغیر معاشرے میں انصاف قائم نہیں ہوسکتا۔جب عدالتی فیصلے بے وقعت ہوجاتے ہیں،آئین اور قانون ردی کی ٹوکری میں جاتا ہے تو یہ بھی فعال ہوجاتے ہیں،جوڈیشل ایکٹو ازم کے نام پر ایسے فیصلے کردیے جاتے ہیں جس کے نتائج کئی سالوں تک بھگتنا پڑتے ہیں،ایک سابق چیف جسٹس نے مل بیٹھنے کا مشورہ دیا تھا،نئے عمرانی معاہدے کی بات کی تھی،ان کی بات مانی جائے ،نیا عمرانی معاہدہ ہو جس میں ہر طبقے کو نمائندگی دی جائے،نئے عمرانی معاہدے کے بغیر پاکستان میں کوئی نظام چلتا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔سوشل میڈیا کے اس دور میں کوئی بھی کسی ایک کی بالا دستی قبول کرنے کو تیار نہیں۔
اب آتے ہیں آخری سوال کے جانب کہ پاکستان میں صدارتی نظام لانا ممکن ہے؟ ایک طریقہ ہے آئین میں تبدیلی کی جائے،آئین میں تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب کسی جماعت کے پاس دوتہائی اکثریت ہوگی ۔اس وقت اسمبلی میں کسی جماعت کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ،عمران خان کی حکومت تو خود اتحادیوں کی بیساکھیوں پر بیٹھے ہیں ۔
اس سوچ کے پیچھے کارفرمائوں کا شاید خیال ہے کہ موجودہ وزیر اعظم ایک مقبول لیڈر ہیں،جو بہت محنتی ہیں،دن رات ایک کرنے کے باوجود کچھ نہیں کرپارہے ،اگر صدارتی نظام آگیا تو وہ ایک بار پھر جیت کر صدر بن جائیں گے ،اپنے پاس اختیارات رکھتے ہوئے سیاہ و سفید کے مالک ہوں گے۔
یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جب صدارتی نظام آئے گا تو نہ عدالت ہوگی ،نہ پولیس بس ایک ہی شخص ہوگا ،یہ ان کی اس نظام سے ناشناسی یا کم علمی ہے۔ویسے پاکستان میں پہلے بھی نظام لایا گیا ،فوجی آمریت کے 36 سالہ دور حکومت میں یہی نظام رہا ،اس نظام نے ہمیشہ ملک کو نقصان پہنچایا ۔کچھ ترقی بھی لیکن اس عارضی ترقی نے آدھا ملک ہڑپ لیا،انتہا پسندی اور دہشتگردی کو فروغ دیا ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت صدارتی نظام نہ تو پی ٹی آئی چاہتی ہے،نہ ن لیگ کا مطالبہ ہے،پیپلز پارٹی نے تو زیادہ تر صدارتی اختیارات پارلیمنٹ یا وزیر اعظم کو تفویض کردیے تھے،ان پر تو ہرگز انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی ۔جے یو آئی اور جماعت اسلامی تو کوئی اور نظام چاہتے ہیں ۔پھر یہ شوشہ کون چھوڑ رہا ہے،اس کی تلاش باقی ہے۔ایسے کون سے ’’چوہے‘‘ ہیں جو پارلیمانی نظامی کی کشتی میں سوراخ کرنا چاہتے ہیں ۔اگر کسی کو پتا چلے تو مجھے بھی ضروربتائیے گا۔

Comments
Post a Comment