کاش تم خودکشی نہ کرتے

  آئی ایم ایف پروگرام کی آمد آمد ہے،تیار رہیں مزید مہنگائی  آئے گی ،ہر ماہ پٹرولیم مصنوعات  کی قیمتیں بڑھ جائیں گی ۔روزمرہ اشیا کی قیمتیں بڑھیں گی ،شرح سود میں مزید اضافہ ہوگا ،حکومت چاہے بھی تو کچھ نہیں کرسکتی ،مشکل حالات میں  وزارت خزانہ سٹیٹ بینک خلیج بڑھ رہی ہے،ایک رپورٹ کے مطابق  زیر گردش قرض بڑھے رہے ہیں ،ڈالر بے لگام ہے،ادائیگیوں کا توزن بگڑ رہا ہے،مہنگائی سے عوام پہلے ہی پریشان ہیں ۔گویا پانی سر سر اوپر چلا گیا ہے،کورونا  کا چیلنج ہو یا سیاسی مجبوریاں ۔وجوہات کوئی بھی ہوں  معاشی اصلاحاتی تاخیر سے عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے  ایسے حالات میں قرض دینے کی شرائط بھی سخت سے سخت ہوتی جارہی ہیں ۔بجلی مہنگی کی جائے،پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس بڑھایا جائے،ٹیکس چھوٹ ختم کی جائے،غرض یہ کہ جتنی چادر اتنے ہی پائوں پھیلائے جائیں ۔بات ٹھیک ہے لیکن ایسے میں شامت عوام کی آتی ہے،قرض دینے والے ادارے نے ہدایت دی ہے کہ سب سیکٹر پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد یکساں طور پر لاگو کی جائے،موبائل ہویا کاپیاں ،امپورٹڈ  مشینری ہویا جوتے سب کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں ۔بجلی کے بلوں نے پہلے ہی عوام کے  دلوں میں خوف بٹھایا ہوا ہے،سرکار مزید نرخ بڑھانے کا وعدہ کرچکی ہے،اس وقت پٹرول پر لیوی 9.62 روپے ہے،ہر ماہ اضافہ کرتے ہوئے اسے 30 روپے پر لے جانا ہے،26 روپے صرف سیلز ٹیکس کی مد میں بڑھ سکتے ہیں،عالمی مارکیٹ میں قیمتیں کم نہ ہوئیں تو متوقع منی بجٹ کے پاس ہونے پر 30 روپے فی لیٹر پٹرول کی قیمت بڑھنے کا اندیشہ ہے،پٹرول کی قیمت یکدم 145 روپے سے 175 روپے تک ہوسکتی ہے۔مہنگائی سے تنگ عوام کا  جینا محال ہوجائے گا ۔


 

ترجمان وزارت خزانہ مزمل اسلم   کہتے ہیں کہ مقامی کھانے،پینے کی اشیا کی قیمتیں نیچے آنا شروع ہوگئی ہے،چینی کی قیمت بھی نیچے آنا شروع ہوگئی ہے۔کورونا کی وجہ سے پوری دنیا میں مہنگائی ہے،مہنگائی2۔9فیصد ہے، کورونا کے باوجود معاشی حالات بہترہورہے ہیں،ہوسکتا ہے پٹرولیم لیوی بڑھانے سے تیل کی قیمت نہ بڑھے،ایک سوال کے جواب میں  ان کا کہنا تھا عام استعمال کی 56 آئٹمز میں سیلز ٹیکس نہیں لگ رہا ،ٹریکٹر  پر نہیں لگتا ہے،گاڑیوں ،موبائل فون پر مزید ٹیکس لگے گی،جن صنعتوں کو ٹیکس چھوٹ دی گئی تھی وہ واپس لی جاسکتی ہے،ہماری معیشت کاحجم 55 ہزار ارب روپے ہے،معیشت کا دھڑن تختہ نہیں ہوا ہے،یہ تاثر غلط ہے،مہنگائی 9.2 فیصد ،ٹیکس اوپر ہے،ایکسپورٹس بڑھ رہی ہیں ۔کرنٹ اکائونٹ میں اضافہ  تیل کی قیمتیں بڑھنے سے ہوا ۔6 عالمی بحران رہے تو پاکستان اڑ جاتا ہے،ہم تو پانچ ماہ سے مقابلہ کررہے ہیں ۔بجلی کا ٹیرف جلدی نہیں بڑھے گا ،جنوری میں شاید اضافہ ہوا ،پوری دنیا میں قیمتیں بڑھی ہیں ہم کو ئی آسمان سے نہیں اترے۔انفلیشن انتظامی مسئلہ ہے مانیٹری کا مسئلہ نہیں ہے۔ہماری اس ایکسپورٹس 30 ارب ڈالرز ہوں گی جو گزشتہ سال 55.5 ڈالرز تھیں ۔زرمبادلہ 31 سے 32 ارب ڈالرز ہوں گے،دونوں ملاکر 70 ارب ڈالرز ہوجائیں گی ،برآمدات کم ہوجائیں گی ،چینی کی پیداوار شروع ہوچکی ہے،گندم ہمارے پاس موجود ہے،ویکسین  کی آمد میں بھی کمی آئی ہے

پی آٹی آئی حکومت کو جن مسائل کا سامنا ہے، سب کو اس کا ادراک تھا۔ لیکن پی ٹی آئی کی قیادت حقیقت کے برعکس جلسوں میں جوش پیدا کرنے کےلیے دعوے کرتی رہی۔ ملکی اور عالمی میڈیا چیخ چیخ کر بیان کرتا رہا کہ پاکستان کی معاشی حالت یہ ہے، آئندہ حکومت کو معیشت کیسی ملے گی؟ دنیا حقیقت بتاتی رہی اور پی ٹی آئی قیادت اپنے دعوے کرتی رہی۔ پی ٹی آئی کے ارسطو کہتے رہے ’’ناں بھائی ناں! ایسا نہیں ہے، ہم تو 100 دن میں دودھ اور شہد کی نہریں نکال کر دکھائیں گے، قیادت اچھی ہوگی تو لوگ ٹیکس لے کر ایف بی آر کے دروازے پر پہنچیں گے، ہم خودکشی کرلیں گے آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔‘‘ لیکن ہوا کیا؟ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔

 

وزیراعظم عمران خان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ’’بلومبرگ‘‘ نے خبردار کیا تھا کہ معاشی چیلنجز آنے والی حکومت کا استقبال کریں گے، نئی حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

 

کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے خراب معیشت کی کالی بلی سے بچنے کی کوشش کی گئی۔ 9 ماہ ضائع کرنے کے بعد وہی کیا گیا جو شروع میں ہی کرلینا چاہیے تھا۔حقیقت میں حکومت خودکشی کرچکی ہے۔ یہ خودکشی آئی ایم ایف کے پاس نہ جاکر نہیں کی گئی بلکہ ان کے تختہ پر ہی لٹک کر حرام موت کا تمغہ سینے پر سجایا گیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے ویسی ہی غلطی کی ہے جو ماضی میں پرویز مشرف نے امریکا سے 20 ارب ڈالر لے کر کی تھی۔ اس غلطی سے حکومت کو فرق پڑے نہ پڑے، عام پاکستانیوں کی زندگیاں ضرور ڈسٹرب ہوں گی۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان لی ہیں۔ عمران خان کی حکومت نے کڑوی گولی نگلی ہے، جو وہ نہیں کھانا چاہتی تھی، کیونکہ اس سے ان کا ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دینے کا منصوبہ پورا ہوتا ہوا مشکل نظر آتا ہے۔ ٹیکسز بڑھیں گے، سبسڈیز ختم ہوجائیں گی، مہنگائی مزید بڑھے گی۔ مشیر خزانہ لاکھ سبز باغ دکھائیں لیکن جب ڈالر بڑھے گا، تیل کی قیمتوں کو پر لگیں گے تو اعلان کردہ 216 ارب روپے کی سبسڈی بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ ثابت ہوگی۔

 

آئی ایم ایف کے پاس جانے کا ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ پاکستان کی معیشت تین سال کےلیے ایک ڈسپلن کے تحت چلے گی، جو یقیناً آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت ہوگی۔ کاروبار میں استحکام آجائے گا۔ غیریقینی کے بادل چھٹ جائیں گے۔ اگر حکومت سرمایہ داروں کو اعتماد دینے میں کامیاب ہوگئی تو ملک میں سرمایہ کاری آنے کا بھی امکان ہے۔

 

معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ اس بار بجٹ خسارہ پچھلے مالی سال سے بھی زیادہ ہوگا۔ اللہ نہ کرے۔ لیکن حالات بتارہے ہیں کہ ایک بڑی تعداد میں لوگ بیروزگار ہوں گے۔

 

آئی ایم ایف مغرب کی معاشی سیاست کو کنٹرول کرنے کا ایک ہتھیارہے، اس پر امریکا اور مغربی ملکوں کی اجارہ داری ہے۔ قرض لینے والے ملکوں سے نہ صرف مقامی معیشت کو کنٹرول کیا جاتا ہے بلکہ ان ملکوں کی خارجہ پالیسی پر بھی شرائط عائد کی جاتی ہیں۔ پاکستان چاہتا تو ترکی کی طرح آئی ایم ایف کو ٹھینگا دکھا سکتا تھا۔ اردگان کو تو امریکی پابندیاں نہ جھکا سکیں لیکن ہمارا ’’اردگان‘‘ سجدہ ریز ہوگیا۔ اب ان کی اپنی شرائط ہیں۔ وہ اپنے ہنٹر سے معاشی گھوڑا دوڑائیں گے۔

 

ایک رپورٹ کے مطابق امریکا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ وینزویلا کے برے حالات، جہاں امریکا اپنی مرضی کی حکومت لانا چاہتا ہے۔ پاکستان پر آئی ایم ایف کا بڑھتا ہوا کنٹرول، وہ وجوہات ہیں جو امریکا کی مستقبل کی خواہش کا پتہ دے رہی ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اپنے آپ کو آزاد ادارہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ آئی ایم ایف میں ساڑھے 17 فیصد شیئر امریکا کا ہے۔ امریکا کا اس پر اثرورسوخ بھی زیادہ ہے۔ امریکا آئی ایم ایف کو سالانہ 170 ارب ڈالر دیتا ہے، جو مختلف ممالک کو قرض کے طور پر دیے جاتے ہیں۔

 

ورلڈ بینک کی حالت بھی یہی ہے۔ اس کا صدر بھی امریکا کا شہری ہی بنتا ہے اور اسے ڈائریکٹ امریکی صدر ہی تعینات کرتا ہے۔ امریکا آئی ایم ایف کے ذریعے پہلے ممالک کی معیشت کو تباہ کرتا ہے، پھر بیل آئوٹ پیکیج دیتا ہے۔ پھر اپنی شرائط منوانے کےلیے حکومتوں پر دبائو بڑھاتا ہے۔ ایکواڈور، وینزویلا کی زندہ مثالیں موجود ہیں۔ ایکواڈور میں پہلے معیشت تباہ کی گئی، پھر آئی ایم ایف کے ذریعے پیکیج دیا گیا اور آخرکار مطلوب ملزم جولین اسانج کو وہاں سے ملک بدر کرایا گیا۔ اب وینزویلا میں بائیں بازو کی حکومت ختم کرنے کےلیے کھیل کھیلا جارہا ہے۔ جس منصوبے پر امریکا ایک عرصے سے کام کررہا تھا۔

 

پاکستان کو ایک عرصے سے آئی ایم ایف کہتا رہا ہے کہ پاکستان اسٹیٹ بینک کو آزاد ادارہ ہونا چاہیے، اسے وزارت خزانہ کے اثرورسوخ سے پاک ہونا چاہیے۔ اب وہ اپنا ہی بندہ لانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ اب وہ پاکستان کی معیشت کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟ ہم سے کیا چیز مانگتے ہیں؟ اس کا وقت کے ساتھ فیصلہ ہوجائے گا۔

 

گزشتہ برسوں میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو 21 پروگرام دیئے۔ صرف اسحاق ڈار کے ساتھ طے پانے والا پروگرام مکمل ہوا۔ ان پروگراموں کا نامکمل ہونا آئی ایم ایف کی بات نہ ماننا تھا۔ عموماً آئی ایم ایف 6 ماہ میں پروگرام کی نظرثانی کرتا ہے، لیکن پاکستان کے معاملے میں تین ماہ میں نظرثانی کی جاتی ہے۔ حالیہ پروگرام میں آئی ایم ایف کی شرائط کو ماننے میں جو رکاوٹیں تھیں، ان کو ہٹا دیا گیا ہے۔ اسدعمر نے ان کی کچھ شرائط ماننے سے انکار کردیا تھا، ان میں سے ایک اداروں کی نجکاری تھی، اسٹیل مل، اسپتالوں کی نجکاری۔

 

امریکا پاکستان کے ذریعے افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے اور اپنی بات منوانے کےلیے پاکستان کو کہہ رہا ہے کہ طالبان پر دباؤ ڈالا جائے۔ ادھر طالبان پاکستان کی بات نہیں مان رہے۔ پاکستان کا طالبان پر وہ کنٹرول نہیں رہا، جو پہلے تھا۔ افغانستان کے ستر فیصد سے زائد حصے پر ان کا کنٹرول ہے۔ امریکا تو کجا وہ کسی کو خاطر میں نہیں لارہے۔ وہ امریکا کو ملک سے بھگانے کے ساتھ ساتھ غنی حکومت کا بھی خاتمہ چاہتے ہیں۔ دوسرا ایران کے خلاف بننے والے اتحاد کےلیے پاکستان کی حمایت مانگی جارہی ہے۔ امریکا ایران کو مسلسل دھمکیاں دے رہا، بحری بیڑے سے اس کا گھیراؤ کرچکا ہے۔

 

ایسے وقت میں اگر پاکستان آئی ایم ایف کے بنے گئے جال میں پھنس گیا تو پاکستان کےلیے بڑی مشکل ہوجائے گی۔ کیونکہ پاکستان نہ تو ایران کے خلاف جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کا ساتھ دے سکتا ہے۔ ہوشمندی سے کھیلا گیا تو ستے خیراں۔ اگر قومی کرکٹ ٹیم کی طرح کھیلے تو پھر نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

 

آئی ایم ایف کا ڈور مور کا مطالبہ ۔پاکستان کے پاس آپشن کیا ہے؟ آئی ایم ایف سے مذاکرات ناکام ہونے میں کتنی صداقت ہے؟ آئی ایم ایف کی ہم سے کیا توقعات ہیں؟ مہنگائی کا خاتمہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے؟

 شوق سے کوئی بھی ملک آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاتا ۔بڑے بڑے ملک ہیں جو مجبور ہوکر جاتے ہیں ،ساہوکار کے پاس مجبوری کیلئے انسان جاتا ہے،جب کوئی قرض دیتا ہے تو اس کی  اپنی شرائط ہوتی ہیں ۔آئی ایم ایف کی بھی اپنی شرائط ہیں ،آئی ایم ایف کا ایک پیکج ہوتا ہوتا جو صرف پاکستان کیلئے ہی نہیں دوسرے ممالک کیلئے بھی ہوتا ہے۔اس کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی چارہ نہیں ۔اگر پاکستان کو پیکج نہیں ملتا تو اس کا کریڈٹ پر اثر پڑے گا ۔ہمیں مختلف اداروں سے قرض چاہئے ہوتا ہے،آئی ایم ایف ایک سبز جھنڈی ہے اگر یہاں سے کچھ مل جائے تو باقی ادارے  بھی کچھ نہ کچھ دے دیں گے۔ڈالر کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی بڑھ گئی ہے۔قرضوں پر سود کی شرح بڑھ گئی ہے۔سخت حل کیلئے کوئی بھی سیاسی جماعت تیار نہیں ۔مہنگائی کی قیمت  پی ٹی آئی کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔حکومت پر تنقید ہورہی ہے۔پی ٹی آئی کو مزید اس کی سیاسی قیمت ادا کرنا پڑے گی ۔عوام ’’پھکڑ‘‘نکال رہے ہیں۔شوکت ترین جن شرائط پر آئی ایم ایف میں گئے اس سے ملکی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا ،اب معاشی و اقتصادی ٹیم امریکا میں ہے۔آئی ایم ایف سے مذاکرات کبھی ناکام ہوتے ہیں ۔مشیران اسلام آباد میں رابطہ کرتے ہیں منتخب حکمران کہتے ہیں ،یہ یہ بات مان لیں ،یہ یہ رہنے دیں تو پھر اس پر آگے بات بڑھتی ہے۔یہ مذاکرات کامیاب ہونے ہیں ،جب سب کچھ آئی ایم ایف پر چھوڑ دیا جاتا ہے  تو وہ خود کرتے ہیں جو کرنا ہے،شوکت ترین ،رضا باقر جیسے لوگ ان کے مینیجرز ہیں ،یہ ایک کلب کے ممبرز ہیں ،مختلف حکومتوں میں یہ اپنی باریاں لیتے رہتے ہیں ۔سی پیک پر امریکی دبائو تھا ،اس لئے اس کی رفتار کم ہوئی ۔اگر سی پیک پر اپنی رفتار سے کام ہوتا رہتا تو پاکستان کی معاشی حالت بہتر ہوتی ۔آئی ایم ایف اپنی شرائط سے پاکستان کو ٹائٹ کرنے کی کوشش کررہا ہے،پاکستان نے اپنی شرائط پوری کردی ہیں ۔پیسے بھی مل جائیں گے۔بنیادی چیز سی پیک ہے،معاشی ٹیم یہ قوم کو بتا نہیں رہی ۔ساہوکار اپنے قرض خواہ کو مرنے نہیں دیتا۔

آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک ،اے ڈی بی  پاکستان سے یہ چاہتے ہیں کہ جب اپنے پائوں پھیلائیں تو اپنی چادر کا سائز ضرور دیکھ لیا کریں ۔ہم لوگوں کا یہی رونا ہے،ہم اپنے اخراجات  پورے نہیں کرپاتے۔پھر ادھر ادھر سے مانگ کر گزارا کرتے ہیں ،آئی ایم ایف جب پیسے دیتا ہے تو معاشی ڈھانچے میں تبدیلی کی بات کرتا ہے،اخراجات گھٹانے کی بات کرتا ہے تاکہ اسے اس کے پیسے واپس بھی مل سکیں۔ریونیو کلیکشن بڑھانے کی  بات کی جاتی ہے۔ہمارے بجٹ میں سب سے بڑا عنصر قرضوں کی واپسی ہے،دوسرا دفاعی اخراجات ہیں ۔تیسرا انتظامی اخراجات ہیں ،یہ ہمارے بجٹ کے 75 فیصد ہیں ،باقی جو بجٹ بجتا ہے وہ انسانی ترقی پر خرچ ہوتے ہیں ۔ہمارے یہ اخراجات کسی کی امداد سے چل نہیں پاتے ہیں ،جب ایسے زندگی گزارنے کا تہیہ کرلیا جائے تو باہر والے توکان مروڑیں گے۔ہم ترجیحات اور عادات بدل لیں تو کچھ حل نکل سکتا ہے۔لیکن ہم اپنی سیکیورٹی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کو تیار نہیں ۔حکومت جو پیسے کا ضیاع کررہی ہے وہ کم نہیں کرتی ۔جو ادارے کام نہیں کررہے ان کے ملازمین کو بھی تنخواہیں دی جارہی ہیں ۔ملکی معیشت ٹھیک کرنی ہے تو ہمیں اپنا سیاسی مزاج بھی بدلنا ہوگا ۔ہمارے جو مزاج ہیں باہر سے جوتے ہی کھاتے رہیں گے۔

 

ابھی تک آئی ایم ایف سے مذاکرات میں کوئی ناکامی نہیں ہوئی ہے۔ہماری ٹیم نے ان کے سامنے اپنے فگرز رکھے ہیں جو ویری فکیشن کی جارہی ہے۔یہ ہوجائے گی تو معاملات بھی حل ہوجائیں گے۔یہ آئی ایم ایف کا 22 واں بیل آئوٹ پیکج ہے جس میں ہم موجود ہیں ۔ہر حکومت ،چاہے فوجی ہو۔پیپلز پارٹی کی ہویا ن لیگ کی ہو ۔پی ٹی آئی کی  ہو سبھی آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں ۔یہ اس لئے جاتے ہیں کہ ہم نے اپنی معیشت کو ٹھیک انداز میں مینیج نہیں کیا ۔اخراجات کو پورا کرنے کیلئے ہمارے پاس کچھ نہیں ۔سوئی سے لے کر بڑی بڑی چیزوں تک ہم باہر سے منگواتے ہیں ۔ہم اپنی خوراک بھی پوری نہیں کرسکتے۔صرف سی پیک کی رفتار کم ہونا مسئلہ نہیں ۔سی پیک تو ابھی آیا ہے اس سے پہلے کیا ہوتا رہا ؟  آئی ایم ایف جیسے اداروں کو امریکا خارجہ پالیسی کیلئے ٹول کے طور پر استعمال کرتا ہے۔چین ،افغانستان کیلئے شرائط رکھی جائیں گی ۔

 

 

 

Comments

Popular posts from this blog

تحریک عدم اعتماد: میچ آخری اوورز میں داخل

میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں

پاکستان میں’’لوٹا ‘‘کلچر کیسے عام ہوا ؟